یوم وفات 16 اکتوبر 1946
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی
شاید اب ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی
گھبرا رہا ہوں کیوں یہ غم ناروا سے اب
کیا مجھ میں غم کے سہنے کی طاقت نہیں رہی
تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
تسکین دل کی اب کوئی صورت نہیں رہی
جینے کو جی رہے ہیں تمہارے بغیر بھی
اس طرح جیسے جینے کی حسرت نہیں رہی
شاید کوئی حسین ادھر سے گزر گیا
وہ درد دل کی پہلی سی حالت نہیں رہی
جاگے ہو رات محفل اغیار میں ضرور
آنکھوں میں اب وہ کفر کی ظلمت نہیں رہی
جب کر دیا خزاں نے وہ رنگیں چمن تباہ
وہ حسن اب کہاں وہ ملاحت نہیں رہی
زاہد میں ہے نہ زہد نہ رندوں میں مے کشی
پھولوں میں حسن غنچوں میں رنگت نہیں رہی
ہاں اے حیاتؔ ہم نے زمانے کے دکھ سہے
پھر بھی ہمیں کسی سے شکایت نہیں رہی