Urdu Deccan

Wednesday, October 26, 2022

سلمان خان جہانپوری

یوم پیدائش 19 اکتوبر 

کل جب اوج پہ سنّاٹا تھا 
مجھ میں اک کہرام مچا تھا

آخر مجھ میں ایسا کیا ہے
آخر وہ کیا دیکھ رہا تھا

عید کا چاند مبارک سب کو
میں ترا چہرہ دیکھ رہا تھا

بوند تھی شبنم کی یا آنسو
پھول سے گال پہ جانے کیا تھا

بیگانہ دنیا سے تجھ میں
اپنی دنیا دیکھ رہا تھا

سلمان خان جہانپوری



عفت زیبا کاکوروی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1924

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا 
تیرے در سے ہاتھ آیا بس یہی کرم تنہا 

دھڑکنیں سناتی ہیں لا مکاں کے افسانے 
کتنی داستانوں کو سن رہے ہیں ہم تنہا 

منزلیں بلاتی ہیں جستجو مچلتی ہے 
تیرگی کا عالم ہے اور ہر قدم تنہا 

یہ بھی چھین لے آ کر گردش جہاں مجھ سے 
چند آرزوئیں ہیں اور میرا دم تنہا 

کاش کوئی قسمت سے جا کے اتنا کہہ دیتا 
حوصلے مرے رہبر تیرے پیچ و خم تنہا 

روح کے اجالوں نے تیرگی کو للکارا 
ظلمتوں کی راہوں میں گھر گئے ہیں ہم تنہا

عفت زیبا کاکوروی



نرجس افروز زیدی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1946

اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے 
ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے 

کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا 
اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے 

تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ 
مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے 

پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں 
ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ہے 

اس شہر میں راس آتی نہیں آئنہ سازی 
لیجے وہ مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے 

ہو جائے کہیں قد میں نہ کل اس کے برابر 
اس خوف سے وہ بھائی کا سر کاٹ رہا ہے 

ہر ایک سے آتی ہے بساند اپنی غرض کی 
دل کس کے رویے کا ثمر کاٹ رہا ہے 

نرجس افروز زیدی



مرزارضا برق ؔ

یوم وفات 17 اکٹوبر 1857

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے 
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے 

نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق 
پوچھتے کیا ہو شب ہجر میں کیا ہوتا ہے 

بے اثر نالے نہیں آپ کا ڈر ہے مجھ کو 
ابھی کہہ دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے 

کیوں نہ تشبیہ اسے زلف سے دیں عاشق زار 
واقعی طول شب ہجر بلا ہوتا ہے 

یوں تکبر نہ کرو ہم بھی ہیں بندے اس کے 
سجدے بت کرتے ہیں حامی جو خدا ہوتا ہے 

برقؔ افتادہ وہ ہوں سلطنت عالم میں 
تاج سر عجز سے نقش کف پا ہوتا ہے

مرزارضا برق ؔ


 

Monday, October 24, 2022

حیات امروہوی

یوم وفات 16 اکتوبر 1946

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی 
شاید اب ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی 

گھبرا رہا ہوں کیوں یہ غم ناروا سے اب 
کیا مجھ میں غم کے سہنے کی طاقت نہیں رہی 

تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا 
تسکین دل کی اب کوئی صورت نہیں رہی 

جینے کو جی رہے ہیں تمہارے بغیر بھی 
اس طرح جیسے جینے کی حسرت نہیں رہی 

شاید کوئی حسین ادھر سے گزر گیا 
وہ درد دل کی پہلی سی حالت نہیں رہی 

جاگے ہو رات محفل اغیار میں ضرور 
آنکھوں میں اب وہ کفر کی ظلمت نہیں رہی 

جب کر دیا خزاں نے وہ رنگیں چمن تباہ 
وہ حسن اب کہاں وہ ملاحت نہیں رہی 

زاہد میں ہے نہ زہد نہ رندوں میں مے کشی
پھولوں میں حسن غنچوں میں رنگت نہیں رہی 

ہاں اے حیاتؔ ہم نے زمانے کے دکھ سہے 
پھر بھی ہمیں کسی سے شکایت نہیں رہی 

حیات امروہوی



اختر سعیدی

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1958

کی جستجو تو ایک نیا گھر ملا مجھے 
برسوں کے بعد میرا مقدر ملا مجھے 

جب تشنگی بڑھی تو مسیحا نہ تھا کوئی 
جب پیاس بجھ گئی تو سمندر ملا مجھے 

دنیا مرے خلاف نبرد آزما رہی 
لیکن وہ ایک شخص برابر ملا مجھے 

زخم نگاہ زخم ہنر زخم دل کے بعد 
اک اور زخم تجھ سے بچھڑ کر ملا مجھے 

نازک خیالیوں کی مجھے یہ سزا ملی 
شیشہ تراشنے کو بھی پتھر ملا مجھے

اختر سعیدی



یعقوب خاور

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1956

مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا 
ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا 

ڈیڑھ نیزے پر ٹنگے سورج کی آنکھیں نوچ لو 
بے سبب دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا 

فکر کی لا‌ مرکزیت جاگتی آنکھوں میں خواب 
ہم خیالی نے زمانے بھر کو اپنا کر دیا 

اک شجر کو جسم کی نم سبز گاہوں کی تلاش 
اور اس تحریک نے جنگل کو سونا کر دیا 

خون کی سرخی سفیدی کی طرح محو سفر 
کچھ نئے رشتوں نے ہر رشتے کو گندا کر دیا 

اک کرن تسخیر کل کی سمت تھا پہلا قدم 
آگ اگلتی آندھیوں نے ہم کو اندھا کر دیا 

یعقوب خاور



مہ جبین عثمان

یوم پیدائش 16 اکتوبر 

تجدید التفات گوارہ نہیں ہمیں 
پھر سے تعلقات گوارہ نہیں ہمیں

منظور یہ نہیں کوئی دہرائے پھر انہیں
تشہیرِ حادثات گوارہ نہیں ہمیں

طے کر چکے ہیں زیست کا ہر ایک امتحاں
پھر سےشمارِ ذات گوارا نہیں ہمیں

ہے دل کا کام صرف دھڑکنا سو وہ کرے 
اس کے مطالبات گوارا نہیں ہمیں

محتاج، حسنِ دلربا سنگھار کا نہیں
اس پر لوازمات گوارہ نہیں ہمیں

جو اجتناب کرنے لگے ہیں جبین سے
ان سے گزارشات گوارہ نہیں ہمیں

مہ جبین عثمان



کرامت بخاری

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1958

جس شجر پر ثمر نہیں ہوتا 
اس کو پتھر کا ڈر نہیں ہوتا 

آنکھ میں بھی چمک نہیں ہوتی 
جب وہ پیش نظر نہیں ہوتا

مے کدے میں یہ ایک خوبی ہے 
ناصحا تیرا ڈر نہیں ہوتا 

اب تو بازار بھی ہیں بے رونق 
کوئی یوسف ادھر نہیں ہوتا 

جو صدف ساحلوں پہ رہ جائے 
اس میں کوئی گہر نہیں ہوتا 

آہ تو اب بھی دل سے اٹھتی ہے 
لیکن اس میں اثر نہیں ہوتا 

غم کے ماروں کا جو بھی مسکن ہو 
گھر تو ہوتا ہے پر نہیں ہوتا 

اہل دل جو بھی کام کرتے ہیں 
اس میں شیطاں کا شر نہیں ہوتا

کرامت بخاری



ادیب راے پوری

یوم وفات 16 اکتوبر 2004

خدا کا ذکر کرے ذکرِ مصطفیٰ نہ کرے 
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے 

درِ رسول پہ ایسا کبھی نہیں دیکھا 
کوئی سوال کرے اور وہ عطا نہ کرے 

کہا خدا نے شفاعت کی بات محشر میں 
مرا حبیب کرے کوئی دوسرا نہ کرے 

مدینے جا کے نکلنا نہ شہر سے باہر 
خدانخواستہ یہ زندگی وفا نہ کرے 

اسیر جس کو بنا کر رکھیں مدینے میں 
تمام عمر رہائی کی وہ دعا نہ کرے

شعورِ نعت بھی ہو اور زبان بھی ہو ادیبؔ 
وہ آدمی نہیں جو ان کا حق ادا نہ کرے

ادیب راے پوری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...