Urdu Deccan

Wednesday, October 26, 2022

بیدل حیدری

یوم پیدائش 20 اکتوبر 1924

ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے 
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

پیار کی خاطر کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں 
وہ تیری مزدوری بھی ہو سکتی ہے 

سکھ کا دن کچھ پہلے بھی چڑھ سکتا ہے 
دکھ کی رات عبوری بھی ہو سکتی ہے 

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے 
ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

بیدلؔ مجھ میں یہ جو اک کمی سی ہے 
وہ چاہے تو پوری بھی ہو سکتی ہے

بیدل حیدری



شکیل نبی نگری

یوم پیدائش 20 اکٹوبر 1918

بے رخی کا تری شکوہ میں کروں کیوں تجھ سے
وقت پڑنے پہ تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

آج پھر شورِ سلاسل سے لرزتی ہے بہار
حشر دیوانوں کا پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

فصلِ گل آتے ہی اڑ جاؤ قفس کو لے کر
بلبلو! نالہ و فریاد سے کیا ہوتا ہے

شکیل نبی نگری


 

سلیم اللہ فہمی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1906

برق بھی یوں کبھی نہ تڑپی تھی
اُف دلِ بے قرار کا عالم

ہاتھ جانے لگے گریباں تک
آ چلا ہے بہار کا عالم

ہے تر ےزلف و رخ کے قابو میں
میرے لیل و نہار کا عالم

سلیم اللہ فہمی


سلمان خان جہانپوری

یوم پیدائش 19 اکتوبر 

کل جب اوج پہ سنّاٹا تھا 
مجھ میں اک کہرام مچا تھا

آخر مجھ میں ایسا کیا ہے
آخر وہ کیا دیکھ رہا تھا

عید کا چاند مبارک سب کو
میں ترا چہرہ دیکھ رہا تھا

بوند تھی شبنم کی یا آنسو
پھول سے گال پہ جانے کیا تھا

بیگانہ دنیا سے تجھ میں
اپنی دنیا دیکھ رہا تھا

سلمان خان جہانپوری



عفت زیبا کاکوروی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1924

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا 
تیرے در سے ہاتھ آیا بس یہی کرم تنہا 

دھڑکنیں سناتی ہیں لا مکاں کے افسانے 
کتنی داستانوں کو سن رہے ہیں ہم تنہا 

منزلیں بلاتی ہیں جستجو مچلتی ہے 
تیرگی کا عالم ہے اور ہر قدم تنہا 

یہ بھی چھین لے آ کر گردش جہاں مجھ سے 
چند آرزوئیں ہیں اور میرا دم تنہا 

کاش کوئی قسمت سے جا کے اتنا کہہ دیتا 
حوصلے مرے رہبر تیرے پیچ و خم تنہا 

روح کے اجالوں نے تیرگی کو للکارا 
ظلمتوں کی راہوں میں گھر گئے ہیں ہم تنہا

عفت زیبا کاکوروی



نرجس افروز زیدی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1946

اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے 
ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے 

کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا 
اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے 

تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ 
مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے 

پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں 
ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ہے 

اس شہر میں راس آتی نہیں آئنہ سازی 
لیجے وہ مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے 

ہو جائے کہیں قد میں نہ کل اس کے برابر 
اس خوف سے وہ بھائی کا سر کاٹ رہا ہے 

ہر ایک سے آتی ہے بساند اپنی غرض کی 
دل کس کے رویے کا ثمر کاٹ رہا ہے 

نرجس افروز زیدی



مرزارضا برق ؔ

یوم وفات 17 اکٹوبر 1857

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے 
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے 

نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق 
پوچھتے کیا ہو شب ہجر میں کیا ہوتا ہے 

بے اثر نالے نہیں آپ کا ڈر ہے مجھ کو 
ابھی کہہ دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے 

کیوں نہ تشبیہ اسے زلف سے دیں عاشق زار 
واقعی طول شب ہجر بلا ہوتا ہے 

یوں تکبر نہ کرو ہم بھی ہیں بندے اس کے 
سجدے بت کرتے ہیں حامی جو خدا ہوتا ہے 

برقؔ افتادہ وہ ہوں سلطنت عالم میں 
تاج سر عجز سے نقش کف پا ہوتا ہے

مرزارضا برق ؔ


 

Monday, October 24, 2022

حیات امروہوی

یوم وفات 16 اکتوبر 1946

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی 
شاید اب ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی 

گھبرا رہا ہوں کیوں یہ غم ناروا سے اب 
کیا مجھ میں غم کے سہنے کی طاقت نہیں رہی 

تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا 
تسکین دل کی اب کوئی صورت نہیں رہی 

جینے کو جی رہے ہیں تمہارے بغیر بھی 
اس طرح جیسے جینے کی حسرت نہیں رہی 

شاید کوئی حسین ادھر سے گزر گیا 
وہ درد دل کی پہلی سی حالت نہیں رہی 

جاگے ہو رات محفل اغیار میں ضرور 
آنکھوں میں اب وہ کفر کی ظلمت نہیں رہی 

جب کر دیا خزاں نے وہ رنگیں چمن تباہ 
وہ حسن اب کہاں وہ ملاحت نہیں رہی 

زاہد میں ہے نہ زہد نہ رندوں میں مے کشی
پھولوں میں حسن غنچوں میں رنگت نہیں رہی 

ہاں اے حیاتؔ ہم نے زمانے کے دکھ سہے 
پھر بھی ہمیں کسی سے شکایت نہیں رہی 

حیات امروہوی



اختر سعیدی

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1958

کی جستجو تو ایک نیا گھر ملا مجھے 
برسوں کے بعد میرا مقدر ملا مجھے 

جب تشنگی بڑھی تو مسیحا نہ تھا کوئی 
جب پیاس بجھ گئی تو سمندر ملا مجھے 

دنیا مرے خلاف نبرد آزما رہی 
لیکن وہ ایک شخص برابر ملا مجھے 

زخم نگاہ زخم ہنر زخم دل کے بعد 
اک اور زخم تجھ سے بچھڑ کر ملا مجھے 

نازک خیالیوں کی مجھے یہ سزا ملی 
شیشہ تراشنے کو بھی پتھر ملا مجھے

اختر سعیدی



یعقوب خاور

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1956

مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا 
ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا 

ڈیڑھ نیزے پر ٹنگے سورج کی آنکھیں نوچ لو 
بے سبب دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا 

فکر کی لا‌ مرکزیت جاگتی آنکھوں میں خواب 
ہم خیالی نے زمانے بھر کو اپنا کر دیا 

اک شجر کو جسم کی نم سبز گاہوں کی تلاش 
اور اس تحریک نے جنگل کو سونا کر دیا 

خون کی سرخی سفیدی کی طرح محو سفر 
کچھ نئے رشتوں نے ہر رشتے کو گندا کر دیا 

اک کرن تسخیر کل کی سمت تھا پہلا قدم 
آگ اگلتی آندھیوں نے ہم کو اندھا کر دیا 

یعقوب خاور



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...