Urdu Deccan

Wednesday, October 26, 2022

مرشد ندوی

یوم پیدائش 21 اکتوبر 1964

آئینے سے سارے چہرے گم ہوئے
میری یادوں کے خزانے گم ہوئے

منظروں سے رونقیں جاتی رہیں
وہ سبھی موسم سہانے گم ہوئے

بھیڑ ہے اور بھیڑ کی تہذیب کیا
بھیڑ میں انسان سارے گم ہوئے

دن میں سائے خاک پر تڑپا کئے
رات میں وہ بھی بچارے گم ہوئے

زندگی کی داستاں ہے مختصر
آئے ہم، رستے سنوارے، گم ہوئے

حسرتوں کی دھول نظریں کھا گئی
راہ میں کیا کیا نظارے گم ہوئے

وقت کی رفتار میں بچتا بھی کیا
زندگی کے سب نگینے گم ہوئے

تیر کر ساحل پہ آئے وہ بچے
ورنہ مرشد سب سفینے گم ہوئے

مرشد ندوی


بہزاد فاطمی

یوم پیدائش 21 اکٹوبر 1914

وجہ شہرت تری آشفتہ سری میری ہے
شہر تیرا ہی سہی دربدری میری ہے

چن لیا لاکھ خدائوں میں پرستش کے لئے
حسن تیرا ہی سہی دیدہ وری میری ہے

ہے خبر موسم سفاک کی مجھ کو لیکن
بارش سنگ میں بھی شیشہ گری میری ہے

اب تو مانوس ہوں اس درجہ غموں سے بہزادؔ
بزم احباب میں بھی نوحہ گری میری ہے

بہزاد فاطمی



گوہر شیخ پوروی

یوم پیدائش 21 اکٹوبر 1951

روز دل کو مرے اک زخم نیا دیتے ہیں 
آپ کیا اپنا بنانے کی سزا دیتے ہیں 

میری بیتابیٔ دل کا جو اڑاتے ہیں مذاق 
وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں 

لوگ کہتے ہیں جسے ظرف وہ اپنا ہے مزاج 
اپنے دشمن سے بھی ہم پیار جتا دیتے ہیں 

کوئی آواز نہیں ہوتی بھرے برتن سے 
اور خالی ہوں تو ہر گام صدا دیتے ہیں 

دیکھ کر میرے نشیمن سے دھواں اٹھتا ہوا 
سوکھے پتے بھی درختوں کے ہوا دیتے ہیں 

زخم دل چاند کی مانند چمکتے ہیں مرے 
آپ جب بھولی ہوئی بات سنا دیتے ہیں 

آپ چپ چاپ ہی آتے ہیں تصور میں مگر 
میرے خوابیدہ خیالوں کو جگا دیتے ہیں 

صرف اک دیوتا سمجھا ہے تمہیں میں نے مگر 
لوگ پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتے ہیں 

کچی دیوار کی مانند ہیں ہم اے گوہرؔ 
ایک ٹھوکر سے جسے لوگ گرا دیتے ہیں

گوہر شیخ پوروی



کاشفؔ اورا

یوم پیدائش 20 اکتوبر 2000

ہنستی رہو کہ دیپ کے تیور میں دم رہے
مجھ کہکشاں کے ساتھ ہوا کا بھرم رہے

گنتی کے چند سال مقدر میں ماں رہی
بچپن گزر چکا تھا سو خوشیوں سے تھم رہے

ہم نے تمہارے ساتھ بتائے ہیں چار دن
الحمد! زندگی کی صدا کا ردھم رہے

بیشک! کوئی کسی کا بھی نعم البدل نہیں
لیکن وہ چاند جس کی محبت میں ہم رہے

وہ تھا تو زندگی کے مقاصد تھے لیکن اب
کاشفؔ میں چاہتا ہوں یہ طوفان تھم رہے

کاشفؔ اورا


جلالؔ لکھنوی

یوم وفات 20 اکتوبر 1909

کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی 
وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی 

کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی 
سوتی ہوئی تقدیر جگائی نہیں جاتی 

کچھ شکوہ نہ کرتے نہ بگڑتا وہ شب وصل 
اب ہم سے کوئی بات بنائی نہیں جاتی 

دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر 
یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی 

کہتی ہے شب ہجر بہت زندہ رہوگے 
مانگا کرو تم موت ابھی آئی نہیں جاتی 

وہ ہم سے مکدر ہیں تو ہم ان سے مکدر 
کہہ دیتے ہیں صاف اپنی صفائی نہیں جاتی 

ہم صلح بھی کر لیں تو چلی جاتی ہے ان میں 
باہم دل و دلبر کی لڑائی نہیں جاتی 

خود دل میں چلے آؤ گے جب قصد کرو گے 
یہ راہ بتانے سے بتائی نہیں جاتی 

چھپتی ہے جلالؔ آنکھوں میں کب حسرت دیدار 
سو پردے اگر ہوں تو چھپائی نہیں جاتی

جلالؔ لکھنوی



منور مرزا زرمی


یوم پیدائش 20 اکتوبر 1955

یہ مانا توجہ کے قابل نہیں ہوں
مگر میں کسی سے بھی غافل نہیں ہوں

ہدایت سے اسلام کی چشم پوشی
میں ایسی ترقی کی قائل نہیں ہوں

رہوں کیوں زمانے کے رحم و کرم پر
بھروسا ہے خود پر ، میں کاہل نہیں ہوں

سمجھ لیتی میں ماسوا کی حقیقت
ابھی عقل میں ایسی کامل نہیں ہوں

سدا مے کدوں میں گزر کرنے والو!
خبردار میں عیشِ منزل نہیں ہوں

سمجھتی ہوں میں سب کے انداز رزمیؔ
اب اتنی بھی آخر میں جاہل نہیں ہوں

منور مرزا زرمی


نادر کاکوری

یوم وفات 20 اکتوبر 1912

کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر 
زمیں یہ سر پر آ جاتی ہے اک دن آسماں ہو کر 

مرے نقش قدم نے راہ میں کانٹے بچھائے ہیں 
بتائیں تو وہ گھر غیروں کے جائیں گے کہاں ہو کر 

خدا سے سرکشی کی پیر زاہد اس قدر تو نے 
کہ تیرا تیر سا قد ہو گیا ہے اب کماں ہو کر 

کوئی پوچھے کہ میت کا بھی تم کچھ ساتھ دیتے ہو 
یہ آئے مرثیہ لے کر وہ آئے نوحہ خواں ہو کر 

ارادہ پیر زاہد سے ہے اب ترکی بہ ترکی کا 
کسی بھٹی پہ جا بیٹھوں گا میں پیر مغاں ہو کر 

تلاش یار کیا اور سیر کیا اے ہم نشیں ہم تو 
چلے اور گھر چلے آئے یہاں ہو کر وہاں ہو کر 

سخنؔ کی بزم میں نادرؔ اسی کے سر پہ سہرا ہے 
رہا جو ہم نوائے بلبل ہندوستاں ہو کر

نادر کاکوری



بیدل حیدری

یوم پیدائش 20 اکتوبر 1924

ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے 
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

پیار کی خاطر کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں 
وہ تیری مزدوری بھی ہو سکتی ہے 

سکھ کا دن کچھ پہلے بھی چڑھ سکتا ہے 
دکھ کی رات عبوری بھی ہو سکتی ہے 

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے 
ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

بیدلؔ مجھ میں یہ جو اک کمی سی ہے 
وہ چاہے تو پوری بھی ہو سکتی ہے

بیدل حیدری



شکیل نبی نگری

یوم پیدائش 20 اکٹوبر 1918

بے رخی کا تری شکوہ میں کروں کیوں تجھ سے
وقت پڑنے پہ تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

آج پھر شورِ سلاسل سے لرزتی ہے بہار
حشر دیوانوں کا پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

فصلِ گل آتے ہی اڑ جاؤ قفس کو لے کر
بلبلو! نالہ و فریاد سے کیا ہوتا ہے

شکیل نبی نگری


 

سلیم اللہ فہمی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1906

برق بھی یوں کبھی نہ تڑپی تھی
اُف دلِ بے قرار کا عالم

ہاتھ جانے لگے گریباں تک
آ چلا ہے بہار کا عالم

ہے تر ےزلف و رخ کے قابو میں
میرے لیل و نہار کا عالم

سلیم اللہ فہمی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...