Urdu Deccan

Monday, December 12, 2022

مصحف اقبال توصیفی

یوم پیدائش 08 دسمبر 1939

جانے کس لیے روٹھی ایسے زندگی ہم سے 
نام تک نہیں پوچھا بات بھی نہ کی ہم سے 

دیکھو وقت کی آہٹ تیز ہوتی جاتی ہے 
جو سوال باقی ہیں پوچھ لو ابھی ہم سے 

کوئی غم ادھر آئے اس کو گھورتی کیوں ہے 
اور چاہتی کیا ہے اب تری خوشی ہم سے 

ایک بھولی بسری یاد آج یاد کیوں آئی 
کیوں کسی کے ملنے کی آرزو ملی ہم سے 

اس کی ایک انگلی پر گھومتی رہی دنیا 
چاند کی طرح ہر شے دور ہو گئی ہم سے

مصحف اقبال توصیفی



عبیر ابوذری

یوم وفات 07 دسمبر 1997

بہت دبلی بہت پتلی حیاتی ہوتی جاتی ہے 
چپاتی رفتہ رفتہ کاغذاتی ہوتی جاتی ہے 

ہمارے گال بھی پچکے ہوئے امرود جیسے ہیں 
اور ان کی ناک ہے کہ ناشپاتی ہوتی جاتی ہے 

ملی ہے حکمرانی دیس کی جب پارساؤں کو 
تو اپنی قوم کیوں پھر وارداتی ہوتی جاتی ہے 

بجٹ اس کا خسارے کا اور اپنا بھی خسارے میں 
حکومت بھی ہماری ہم جماتی ہوتی جاتی ہے 

وہ لندن میں مکیں ہیں اور میں ہوں چیچوں کی ملیاں میں 
ہماری دوستی قلمی دواتی ہوتی جاتی ہے 

ہمارے درمیاں بیٹھے ہوئے ہیں افسر اعلیٰ 
تبھی تو آج اپنی چوڑی چھاتی ہوتی جاتی ہے

عبیر ابوذری



اسماعیل پرواز

یوم پیدائش 07 دسمبر 1945

روزو شب کی یہ پیمائش آخر کب تک
ہر لمحہ جینے کی خواہش آخر کب تک

اپنی ذات میں کھوئے رہنا بدمستی ہے
یہ خود غرضی کی آسائش آخر کب تک

سب رنگوں پر چڑھ جائے گی یار سفیدی
رنگ برنگی یہ زیبائش آخر کب تک

بہلاوے کی گود میں چپکائے رکھوگے
بچوں کی پیاری فرمائش آخر کب تک

سچ کو اے پروازؔ چھپا کر آئینے سے
رکھے کی کوئی آرائش آخر کب تک

اسماعیل پرواز



صبا بلگرامی

یوم پیدائش 07 دسمبر 1955

تجربہ ہے مرحلہ ہے حادثہ ہے زندگی 
زندگی منزل نہیں ہے راستہ ہے زندگی 

سامنے ہے اک حقیقت اک ارادہ اک ادا 
چہرہ ہی چہرہ نہیں ہے آئنہ ہے زندگی 

کون ہے ہمدرد کس کا یہ بتانا ہے کٹھن 
ہر قدم پہ ایک تازہ مرحلہ ہے زندگی 

کوئی حسرت ہے نہ ارماں ہے نہ ہے کوئی امید 
لگ رہا ہے درد کا ہی تبصرہ ہے زندگی 

موت تو آئے گی ایک دن بن کے پیغام سکوں 
بس ابھی تو مشکلوں کا سامنا ہے زندگی

صبا بلگرامی



کنول سیالکوٹی

یوم پیدائش 07 اکتوبر 1925

نہ تو آغاز نہ انجام پہ رونا آیا 
اپنی دقت کی ہر اک شام پہ رونا آیا 

اہل محفل کو ہوئی شمع کے جلنے کی خوشی 
مجھ کو پروانے کے انجام پہ رونا آیا 

دل سے ابھرا تو نگاہوں کے دریچے سے گرا 
اشک بنتے ہوئے ہر جام پہ رونا آیا 

وقت رخصت جو نگاہوں نے تری مجھ کو دیا 
یاس و امید کے پیغام پہ رونا آیا 

ہم غریبوں کی بھلا صبح کہاں شام کہاں 
صبح پر اشک بہے شام پہ رونا آیا 

میری تقدیر میں در در کا بھٹکنا تھا کنولؔ 
حسن آغاز کے انجام پہ رونا آیا

کنول سیالکوٹی



راحت سلطانہ

یوم پیدائش 07 دسمبر 1948

شکر رب ہے کہ بس امان میں ہوں 
کن دعاؤں کے سائبان میں ہوں 

پر ہیں بھیگے ہوئے اڑان میں ہوں 
وقت کے سخت امتحان میں ہوں 

آج بھی اجنبی ہے ہر اپنا 
جب کہ برسوں سے خاندان میں ہوں 

پتھروں نے سکون چھین لیا 
جب سے میں کانچ کے مکان میں ہوں 

کیا جدائی کا اور ہو امکاں 
تیرے دل میں ہوں تیری جان میں ہوں 

گھر کی تعریف کیا کروں راحت 
میں تو مدت سے اک مکان میں ہوں

راحت سلطانہ



خالد ملک ساحل

یوم پیدائش 07 دسمبر 1961

اک تری یاد کے سہارے پر 
زندگی کٹ گئی کنارے پر 

کون رستے بدل رہا ہے وہاں 
کون رہتا ہے اس ستارے پر 

روشنی کی اگر علامت ہے 
راکھ اڑتی ہے کیوں شرارے پر 

امتحاں کی خبر نہیں لیکن 
رو رہا ہوں ابھی خسارے پر 

جب نظر کو نظر نہیں آیا 
زندگی رک گئی نظارے پر 

میرے اصرار پر نہیں آیا 
جس کو اصرار تھا اشارے پر 

خود نمائی کا جال تھا ساحلؔ 
میں نے بھی فکر کے سنوارے پر 

خالد ملک ساحل



راز عظیم

یوم پیدائش 06 دسمبر 1932

رات اندھیری سونی گلیاں چیخ رہا ہے سناٹا
دل کے کھلے دروازے سے اب کوئی نہ کوئی آئے گا

راز عظیم



عنبر بستوی

یوم پیدائش 06 دسمبر 

بہتے پانی پر کب تک کاغذ کی ناؤ جلاؤ گے
مجھ کو دھوکہ دینے والے خود ہی دھوکہ کھاؤ گے

جیسا بویا ہے تم نے اب ویسا ہی پھل پاؤ گے
پیڑ لگا کر نیم کا بولو آم کہاں سے لاؤ گے

رات کو میرے خوابوں میں تم اکثر آتے رہتے ہو
جان تمنا بولو کب تک یوں مجھ کو ٹرپاؤ گے

آتنا مت مغرور بنو تم آج بلندی پر جا کر
وقت کی مار سے تم بھی اک دن دھرتی پر آجاؤ گے

ٹھیک نہیں ہے ظلم و ستم ہر روز غریبوں پر ڈھانا
ان کی آنہوں سے اک دن تم مٹی میں مل جاؤ گے

جیتے جی ماں باپ کی عزت کرنا سیکھ لو اے بیٹے
دنیا میں جب یہ نہ رہیں گے تو ہر پل پچتھاؤ گے

شیشہ ہو تو پتھر کے اس شہر سے جاکر دور رہو
ورنہ پتھر سے ٹکرا کر ٹکروں میں بٹ جاؤ گئے

دوست نہیں ہو سکتے کبھی وہ جنکی فطرت الگ رہے
تم ہو آندھی تو دیپک کا کیسے ساتھ نبھاؤ گے

غم کی دھوپ مٹانی ہو تو عنبر سے اک وعدہ لو
نفرت کے اس جنگل میں تم پیار کے پیڑ لگاؤ گے

عنبر بستوی



Monday, December 5, 2022

احمد علی برقی اعظمی

یوم وفات 05 دسمبر 2022

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ 
اللہ مغفرت فرمائے آمین

ناظم ادبی گروپ اردو دکن محبی فضل احمد کی اردو ادب اور ادیب نوازی سے متاثر ہوکر منظوم تاثرات
محبی فضل احمد کی نذر
احمد علی برقی اعظمی
فضل احمد اردو کے ہیں پاسدار
ان کو اردو کے ادیبوں سے ہے پیار
ادبی صفحہ ان کا ہے اردو دکن
دیکھیں اس کو فیس بک پر ایک بار
آپ کو چل جاٸے گا اس کا پتہ
اردو کے بے لوث ہیں وہ جاں نثار
کس کا ہے یوم تولد آج انھیں
رہتا ہے شدت سے اس کا انتظار
مستحق ہیں داد اور تحسین کے
ساتھ ان کے جو بھی ہیں رفقاٸے کار
ان کو ہر شاعر ہے اردو کا عزیز
اس لٸے شیدا ہے ان کا خاکسار
ان کے حق میں ہے یہ برقی کی دعا
دے جزاٸے خیر انھیں پروردگار

احمد علی برقی اعظمی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...