Urdu Deccan

Sunday, January 29, 2023

فرحت ناز

یوم پیدائش 20 جنوری 1978

شمع کی لو سے جو گزرتے ہیں
وہ پتنگے ہی جلتے مرتےہیں

ہم ہیں مانند اک گھروندے کے
جابجا ٹوٹتے بکھرتے ہیں

جوں ہی کروٹ بدلتا ہے سورج
سائے دیوار سے اترتے ہیں

ناز ہم موم کا بدن لے کر
بے خطر آگ سے گزرتے ہیں

فرحت ناز



محشر فیض آبادی

یوم پیدائش 20 جنوری 1958

مرے کھانے سے گھبرایا بہت ہے 
وہ دعوت دے کے پچھتایا بہت ہے 
لفافہ دیکھ کر بولا وہ مجھ سے 
دیا کم ہے میاں کھایا بہت ہے 

محشر فیض آبادی



ایم علی

یوم پیدائش 20 جنوری 1946

بجا رہا ہے تہہِ آب جلترنگ کوئی
ہر ایک موج میں ملتی ہے گنگناہٹ سی

ایم علی



جنید حزین لاری

یوم پیدائش 20 جنوری 1933

برپا ہیں عجب شورشیں جذبات کے پیچھے 
بے تاب ہے دل شوق ملاقات کے پیچھے 

جن کو نہ سمجھ پائے ہم ارباب نظر بھی 
سو راز ہیں اس شوخ کی ہر بات کے پیچھے 

اس ٹھوس حقیقت سے تعرض نہیں ممکن 
اک صبح تجلی ہے ہر اک رات کے پیچھے 

ارباب وطن ہم کو ذرا یہ تو بتائیں 
کن ذہنوں کی سازش ہے فسادات کے پیچھے 

منظر ہے لہو رنگ سلگتی ہیں فضائیں 
شعلوں کا وہ سیلاب ہے برسات کے پیچھے 

ہم ان کو سمجھتے ہیں حزیںؔ کہہ نہیں سکتے 
اسباب جو ہیں تلخئ حالات کے پیچھے 

جنید حزین لاری



محمد اسماعیل آسی آروی

یوم پیدائش 19 جنوری 1921

نہ قہقہہ نہ تبسم نہ اشک پیہم ہے 
جہاں پہ ہم ہیں وہاں کچھ عجیب عالم ہے 

جو پہلے آج سے تھا آج بھی وہی غم ہے 
یہ دور جام نہیں ہے فریب پیہم ہے 

برا نہ مانو تو اک بات تم سے عرض کروں 
تمہارا لطف بہ اندازۂ ستم کم ہے 

یہ صبح و شام کی مستی یہ نشۂ شب و روز 
ترے بغیر کوئی کیف ہو مجھے سم ہے 

سر نیاز کبھی اس کے سامنے نہ جھکا 
اسی قصور پہ ہم سے زمانہ برہم ہے 

ہے بات بات پہ ہجو سبو و ساغر و مے 
جناب حضرت‌ واعظ سے ناک میں دم ہے 

نگاہ ناز کو تکلیف التفات نہ دو 
کہ اب تو زخم جگر بے نیاز مرہم ہے 

خطا ضرور کوئی اس سے بھی ہوئی ہوگی 
کہ آخر آسیؔ خستہ بھی ابن آدم ہے 

محمد اسماعیل آسی آروی



ناظم قمر

یوم پیدائش 19 جنوری 1937

دور حاضر کا یہ کردار خدا خیر کرے 
ماں سے بیٹے کو نہیں پیار خدا خیر کرے 

پیار اوروں میں تو ہم بانٹ رہے تھے کل تک 
آج آپس میں ہے تکرار خدا خیر کرے 

بسکہ آباد ہمارے ہی لہو سے ہے چمن 
ہم چمن کے نہیں حق دار خدا خیر کرے 

ایک نا اہل ہے اس وقت چمن کا مالی 
پھول بھی تو نہیں بیدار خدا خیر کرے 

چھوٹ کر ہاتھ سے دو چار گریں تو کیا ہو 
ایک تھالی کی یہ جھنکار خدا خیر کرے 

نامکمل ہے نشیمن مرا لیکن بجلی 
بن گئی طالب دیدار خدا خیر کرے 

جانے کب کیسے قمرؔ پیاس بجھے گی اس کی 
پی رہی ہے لہو تلوار خدا خیر کرے

ناظم قمر


 

تبسم صدیقی

یوم پیدائش 18 جنوری 1964

یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں 
آپ کا اعتراف کرتے ہیں 

آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو 
آؤ آئینے صاف کرتے ہیں 

تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم 
بات اپنے خلاف کرتے ہیں 

مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست 
جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں 

لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں 
لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں

تبسم صدیقی



فوزیہ اختر ازکی

یوم پیدائش 17 جنوری

مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے
زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے

سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے
ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے

مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے
ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے

سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا
میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے

یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن
کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے

میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں
تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے

کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو
تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے

فوزیہ اختر ازکی



حکیم منظور

یوم پیدائش 17 جنوری 1937

ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا 
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا 

نہ دے سکا مجھے وسعت سمندروں کی مگر 
سمندروں کا مجھے اضطراب دے کے گیا 

وہ کس لیے مرا دشمن تھا جانے کون تھا وہ 
جو آنکھ آنکھ مسلسل سراب دے کے گیا 

خلا کے نام عطا کر کے چھاؤں کی میراث 
مجھے وہ جلتا ہوا آفتاب دے کے گیا 

وہ پیڑ اونچی چٹانوں پہ اب بھی تنہا ہیں 
انہی کو ساری متاع سحاب دے کے گیا 

ہر ایک لفظ میں رکھ کر سراب معنی کا 
ہر ایک ہاتھ میں وہ اک کتاب دے کے گیا 

میں کل ہوں اور تو جز میں بھی کل ہے اے منظورؔ 
بچھڑتے وقت مجھے یہ خطاب دے کے گیا

حکیم منظور



رشید ساقی

یوم پیدائش 17 جنوری 1926

سل گئے ہونٹ اگر آنکھ ہی نم ہو جائے
کاش جو بوجھ میرے دل پہ ہے کم ہو جائے

کوئی انداز تو جینے کا ہو انسان کے پاس
جسے راحت نہ ملے خوگرِغم ہو جائے

اس توقع پر ستم اس کے سہے جاتے ہیں
جانے کس وقت وہ مائل بہ کرم ہو جائے

سر فرازی مجھے مل جائے زمانے بھر کی
مرا سر آپؐ کی دہلیز پہ خم ہو جائے

مری تحریر ہو رنگین کہ سادہ ، کچھ ہو
کیفیت دل کی کسی طور رقم ہو جائے 

نہ وہ احباب ،نہ وہ صورت حالات، نہ ہم 
کیسے تسکین کا سامان بہم ہو جائے

مری فطرت کو عطا کر وہ بصیرت جس سے
دل جہاں بیس صفتِ ساغر جم ہو جائے

شاعری حسن صداقت کی ہو مظہر ساقی
مرا فن باعثِ توقیر قلم ہو جائے 

رشید ساقی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...