Urdu Deccan

Sunday, January 29, 2023

صادق سعیدی

یوم پیدائش 22 جنوری 1995

کیا ملا ہم کو محبت پہ گزارا کر کے
"دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے"

میں کہ اک خاک ہوں مٹ جاؤں گا مٹی بن کر
سارا عالم ہی مری جان تمھارا کر کے

کیا بھروسہ کہ میں خود کو ہی لڑادوں خود سے
اس نے چھوڑا ہے مجھے مجھ سے کنارہ کر کے

اب کے اس طرح سے اس نے ہے چرایا مجھ کو
خود کو رکھا ہے مری آنکھ کا تارا کر کے

عدل دہلیز پہ قائد کی چھپا بیٹھا ہے
آپ بیٹھے ہیں عدالت پہ اجارہ کر کے

میرے مسکن پہ نظر کس کی لگی ہے آخر
دل دہل جائے ہے یک دم سے نظارہ کر کے

جن پہ پابندیِ گفتار ہو نافذ صادق
بات کرتے ہیں وہ آنکھوں سے اشارہ کرکے

صادق سعیدی

شمسہ نجم

یوم پیدائش 02 جنوری 1968

محشر میں مل سکے گا سہارا رسول کا 
اپنا لیا جو ہم نے طریقہ رسول کا 

اک معجزہ تھا ذات کا ایمان پہ دلیل 
سب ڈھونڈتے رہے نہ تھا سایہ رسول کا 

دنیا بنی اسی کی بنی اس کی آخرت 
کردار میں بسا لے جو تقویٰ رسول کا 

ہے آرزو یہی کہ مدینے کو جا سکوں 
اور دیکھنا نصیب ہو روضہ رسول کا 

گونجی بلال کی نہ مدینے میں جب اذاں 
گھڑیاں تھمیں کہ چپ تھا دلارا رسول کا 

ہر چیز میں توکل و تقویٰ کی تھی جھلک 
جامہ رسول کا کہ بچھونا رسول کا 

بخشش تبھی تو ہو جو شفاعت ملے مجھے 
وعدہ خدا کا پر ہو ارادہ رسول کا 

پوری یہ کائنات ستاروں سے ہے بھری 
سب سے بلند بخت ستارہ رسول کا 

گو ہے گناہ گار ہے بخشش کی آس پر 
شمسہؔ کو صرف ایک سہارا رسول کا

شمسہ نجم



روحی قادری

یوم پیدائش 21 جنوری 1920

گمان و وہم کے دوزخ میں ڈال دیتا ہے
مجھے یقیں کا سمندر اچھال دیتا ہے

روحی قادری


فرحت ناز

یوم پیدائش 20 جنوری 1978

شمع کی لو سے جو گزرتے ہیں
وہ پتنگے ہی جلتے مرتےہیں

ہم ہیں مانند اک گھروندے کے
جابجا ٹوٹتے بکھرتے ہیں

جوں ہی کروٹ بدلتا ہے سورج
سائے دیوار سے اترتے ہیں

ناز ہم موم کا بدن لے کر
بے خطر آگ سے گزرتے ہیں

فرحت ناز



محشر فیض آبادی

یوم پیدائش 20 جنوری 1958

مرے کھانے سے گھبرایا بہت ہے 
وہ دعوت دے کے پچھتایا بہت ہے 
لفافہ دیکھ کر بولا وہ مجھ سے 
دیا کم ہے میاں کھایا بہت ہے 

محشر فیض آبادی



ایم علی

یوم پیدائش 20 جنوری 1946

بجا رہا ہے تہہِ آب جلترنگ کوئی
ہر ایک موج میں ملتی ہے گنگناہٹ سی

ایم علی



جنید حزین لاری

یوم پیدائش 20 جنوری 1933

برپا ہیں عجب شورشیں جذبات کے پیچھے 
بے تاب ہے دل شوق ملاقات کے پیچھے 

جن کو نہ سمجھ پائے ہم ارباب نظر بھی 
سو راز ہیں اس شوخ کی ہر بات کے پیچھے 

اس ٹھوس حقیقت سے تعرض نہیں ممکن 
اک صبح تجلی ہے ہر اک رات کے پیچھے 

ارباب وطن ہم کو ذرا یہ تو بتائیں 
کن ذہنوں کی سازش ہے فسادات کے پیچھے 

منظر ہے لہو رنگ سلگتی ہیں فضائیں 
شعلوں کا وہ سیلاب ہے برسات کے پیچھے 

ہم ان کو سمجھتے ہیں حزیںؔ کہہ نہیں سکتے 
اسباب جو ہیں تلخئ حالات کے پیچھے 

جنید حزین لاری



محمد اسماعیل آسی آروی

یوم پیدائش 19 جنوری 1921

نہ قہقہہ نہ تبسم نہ اشک پیہم ہے 
جہاں پہ ہم ہیں وہاں کچھ عجیب عالم ہے 

جو پہلے آج سے تھا آج بھی وہی غم ہے 
یہ دور جام نہیں ہے فریب پیہم ہے 

برا نہ مانو تو اک بات تم سے عرض کروں 
تمہارا لطف بہ اندازۂ ستم کم ہے 

یہ صبح و شام کی مستی یہ نشۂ شب و روز 
ترے بغیر کوئی کیف ہو مجھے سم ہے 

سر نیاز کبھی اس کے سامنے نہ جھکا 
اسی قصور پہ ہم سے زمانہ برہم ہے 

ہے بات بات پہ ہجو سبو و ساغر و مے 
جناب حضرت‌ واعظ سے ناک میں دم ہے 

نگاہ ناز کو تکلیف التفات نہ دو 
کہ اب تو زخم جگر بے نیاز مرہم ہے 

خطا ضرور کوئی اس سے بھی ہوئی ہوگی 
کہ آخر آسیؔ خستہ بھی ابن آدم ہے 

محمد اسماعیل آسی آروی



ناظم قمر

یوم پیدائش 19 جنوری 1937

دور حاضر کا یہ کردار خدا خیر کرے 
ماں سے بیٹے کو نہیں پیار خدا خیر کرے 

پیار اوروں میں تو ہم بانٹ رہے تھے کل تک 
آج آپس میں ہے تکرار خدا خیر کرے 

بسکہ آباد ہمارے ہی لہو سے ہے چمن 
ہم چمن کے نہیں حق دار خدا خیر کرے 

ایک نا اہل ہے اس وقت چمن کا مالی 
پھول بھی تو نہیں بیدار خدا خیر کرے 

چھوٹ کر ہاتھ سے دو چار گریں تو کیا ہو 
ایک تھالی کی یہ جھنکار خدا خیر کرے 

نامکمل ہے نشیمن مرا لیکن بجلی 
بن گئی طالب دیدار خدا خیر کرے 

جانے کب کیسے قمرؔ پیاس بجھے گی اس کی 
پی رہی ہے لہو تلوار خدا خیر کرے

ناظم قمر


 

تبسم صدیقی

یوم پیدائش 18 جنوری 1964

یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں 
آپ کا اعتراف کرتے ہیں 

آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو 
آؤ آئینے صاف کرتے ہیں 

تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم 
بات اپنے خلاف کرتے ہیں 

مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست 
جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں 

لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں 
لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں

تبسم صدیقی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...