Urdu Deccan

Wednesday, April 5, 2023

قطب کامران

یوم پیدائش 08 مارچ 1966

رات خوابوں میں برستے رہے پتھر کتنے
پر بنے شیش محل ذہن کے اندر کتنے

میں اترتا گیا الفاط کی گہرائی میں
مجھ کو ملتے رہے افکار کے جوہر کتنے

شب کی آنکھوں میں رہی نیند کی مستی پھر بھی
اشک کی سیل بہا لے گئی دفتر کتنے

کامراںؔ موسمِ تنہائی بھی کیا موسم تھا
برف باری تھی اور آنکھوں میں تھے منظر کتنے

قطب کامران


 

شیخ علیم اسرار

نظم :- عورت ترے مقامِ تقدس کو ہے سلام

رب کی نوازشات میں پہلی ہے تو عطا 
نازک سا آبگینہ تو الفت کی انتہا 

تیری ہی گود بچے کی پہلی ہے درس گاہ 
ایثار تیرا وصف ہے بے لوث تیری چاہ 
کتنے ہی زاویوں کو بدلتی ہے اک نگاہ 
مشکل میں زندگی کی منّور کرے تو راہ

نظمِ جہاں میں ضبط کی تنویر بے بہا
احساس منفرد تری تمثیل ہے جدا

مہکے ترےوجود سے ہرایک انجمن 
تو آبرو سراپا ہے تو رونقِ چمن 
سب سے جدا ہے تیری اداؤں کا بانکپن 
تو ہم سفر کہ جس کا وفادار ہے چلن

توہےحیا کا رنگ سلاست کا آئینہ
مشکل سمجھنا تیراہے آسان فلسفہ

تو کائنات کا ہے مجسم حسین رنگ
آواز تیری جیسے کہ بجتا ہے جل ترنگ
تو کارزارِ عشق کی ہے جاوداں امنگ
امکان میں سدا رہی تیرے سبب سے جنگ

دنیا میں تو ہے عزم کی تصویر ماورا
خوبی سے تو نبھاتی ہے ہررشتہ باخدا

توہمنوا رفیق ہے تو مہربان غمگسار
عظمت نشان جیسے مچلتاہے آبشار
جھونکا ہواکا مست ہےتو موسمِ بہار 
انسانیت کے روپ کا دم سے ترے نکھار

تو خلق بے نیاز تو معصوم سی دعا
خوددار خود نما کہ ہے تو محورِ انا 

ضامن ہے تو نجات کی ممتا کا آسماں 
تو پیکرِ خلوص محبت کی کہکشاں
دریا کی موج تو ہے توکشتی کا بادباں 
مہر و وفا کی لاج ہے تو ضبط کا مکاں

اسرار دلنشین کہ دلبر ہے دلربا 
تو بحر بے کراں ہے ظرافت سے آشنا
عورت ترے مقامِ تقدس کو ہے سلام

شیخ علیم اسرار



ابھشیک کمار امبر

یوم پیدائش 07 جنوری 2000

راہ بھٹکا ہوا انسان نظر آتا ہے 
تیری آنکھوں میں تو طوفان نظر آتا ہے 

پاس سے دیکھو تو معلوم پڑے گا تم کو 
کام بس دور سے آسان نظر آتا ہے 

اس کو معلوم نہیں اپنے وطن کی سرحد 
یہ پرندہ ابھی نادان نظر آتا ہے 
 
آئی جس روز سے بیٹی پہ جوانی اس کی 
باپ ہر وقت پریشان نظر آتا ہے 

جب سے تم چھوڑ گئے مجھ کو اکیلا امبر
شہر سارا مجھے ویران نظر آتا ہے 

ابھشیک کمار امبر


 

سید سبط جعفر زیدی

یوم پیدائش 07 مارچ 1957

کون کہتا ہے مجھے شان سکندر دے دے
میرے معبود مجھے فقر ابو ذر ؓ دے دے

مالک لوح و قلم، بہر جہاد قلمی
مجھ کو الفاظ و مفاہیم کا لشکر دے دے

عشق جو تو نے اویس قرنی ؓ کو بخشا 
ہو جو ممکن تو مجھے اس سے فزوں تر دے دے

تاجور بھی میرے قدموں میں سعادت ڈھونڈیں
زینت سر کو جو نعلین پیمبر دے دے

جن کو سرکار نے بخشا شرف گویائی
لعل و یاقوت نہ دے، مجھ کو وہ کنکر دے دے

تیرے محبوبؐ نے جو پیٹ پے باندھا اکثر
وسعت رزق نہ دے، مجھ کو وہ پتھر دے دے

ظاہری تن کے لئے اور نہ کفن کو کپڑا
جو میرے عیب چھپا دے وہی چادر دے دے

وقت کے مرحب و عنتر سے نمٹنے کے لئے
پھر کوئی فاتح خيبر ؓ سا غضنفر دے دے

سید سبط جعفر زیدی


 

کوثر جہاں کوثر

یوم پیدائش 06 مارچ 1944

بچپن نظم

نئی نئی دنیا لگتی تھی نئے نئے سے لوگ 
کھلتی کلیاں صبح سویرے کیسے مدھم مدھم 
حیرت ہوتی پھول پہ کیسے جم جاتی ہے شبنم 
چڑیوں کی آواز سناتی گھنگرو جیسی چھم چھم 
بارش کی بوندیں گرتیں پیڑوں پہ رم جھم رم جھم 
برگد کی داڑھی کو پکڑے بچے پینگ بڑھاتے 
کوے مینا کوئل چڑیاں مل کر شور مچاتے 
ماں کے ہاتھوں کی اک خوشبو بستی تھی روٹی میں 
بنا شکر لگتا تھا میٹھا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی 
تھا کتنا معصوم سا بچپن بات نہ ہم نے جانی 
وہ پنچھی میٹھی آوازیں نور سی اجلی بھور 
پھسل گئی کیوں ہاتھ سے اپنے وہ سپنوں کی ڈور

کوثر جہاں کوثر


 

بدر ایمنی

یوم پیدائش 06 مارچ 1948

توڑ بیٹھے کہیں نہ تشنہ لبی
وہ تعلق جو چشمِ نم سے ہے
تو سفر میں سکوں کے خواب نہ دیکھ
راہ تعبیر پیچ و خم سے ہے

بدر ایمنی

 

Tuesday, April 4, 2023

تحسین روزی

یوم پیدائش 06 مارچ

پردیس سے تم لوٹ کے آؤ گے نہ جب تک
آسائش و راحت کو بھی آزار لکھوں گی

چپ رہ کے بھی کہہ دیتی ہیں سب کچھ تری آنکھیں
میں تیری خموشی کو بھی گفتار لکھوں گی

جب تک وہ خفا مجھ سے رہے گا بخدا میں
خود کو ہی خطا وار و گنہگار لکھوں گی

گر چھو لے مجھے آکے ترے پیار کی خوشبو
صحرا کو بھی صحرا نہیں گلزار لکھوں گی

ہاں! تیری محبت میں ہی دیوانی ہوئی ہوں
اک بار نہیں ، میں اسے سو بار لکھوں گی

اچھی نہیں لگتی ہیں جسے پیار کی باتیں
اس شخص کو تحسینؔ میں بیمار لکھوں گی

تحسین روزی


 

وقار صدیقی

یوم پیدائش 06 مارچ 1932

جسے دیکھو درندہ سا لگے ہے 
یہ سارا شہر تو صحرا لگے ہے 

نہ چھت اپنی نہ یہ دیوار اپنی 
نہ در اپنا نہ گھر اپنا لگے ہے 

خدا ہی جانتا ہے حال اس کا 
وہ کیا ہے اور مجھ کو کیا لگے ہے 

کوئی تو بات ہے اس آدمی میں 
برا ہو کر بھی جو اچھا لگے ہے 

نہ جانے دوریاں کیوں بڑھ گئی ہیں 
جو اپنا تھا پرایا سا لگے ہے 

شرد کی پورنیما میں تاج کا حسن 
بڑا دل کش بہت پیارا لگے ہے 

حدیث دل سناتے کیوں نہیں اب 
یہ قصہ کیا فسانہ سا لگے ہے 

وہ جانے سوچتا رہتا ہے کیا کیا 
اسے یہ دنیا جانے کیا لگے ہے 

وقار صدیقی


 

سلطان ساجد

یوم پیدائش 06 مارچ 1947

یاد ماضی کے کئی خواب سہانے آئے
مجھ سے ملنے جو مرے یار پرانے آئے

جس کے حصے میں محبت کے خزانے آئے
دن سمجھ لیجیے اُس کے ہی سہانے آئے

ایک مدت سے تڑپتی ہے یہ خواہش دل میں
خشک ہونٹوں پہ کوئی پھول کھلا نے آئے

دولتِ صبر سے لبریز ہے سینہ اپنا
کیوں ہمیں خواب وہ جنت کے دکھانے آئے

عمر بھر جن کو رہی ہم سے عداوت بے جا
آج تربت پہ وہی پھول چڑھانے آئے

جھوٹے موسم کے سبھی آج اشارے نکلے
دن وہی لوٹ کے پھر دیکھ پرانے آئے

 رُخ سمندر کا میاں دیکھ کے حیران ہیں ہم
کون طوفان میں کشتی کو بچانے آئے

شہر جلتا ہے تو جل جائے بلا سے ساجد
کس کو فرصت ہے یہاں آگ بجھانے آئے

سلطان ساجد


 

نورین طلعت عروبہ

یوم پیدائش 04 مارچ 1957

نمو کو شاخ کے آثار تک پہنچنا ہے 
بکھر کے پھول نے مہکار تک پہنچنا ہے 

ہم اپنی سلطنت شعر میں بہت خوش ہیں 
وہ اور ہیں جنہیں دربار تک پہنچنا ہے 

غریب شہر کے بہتے لہو کا ذکر فقط 
وہ سرخیاں جنہیں اخبار تک پہنچنا ہے 

ہمیں جو چپ سی لگی ہے یہ بے سبب تو نہیں 
کسی خیال کو اظہار تک پہنچنا ہے 

طلسم عمر کی تعریف ساری اتنی سی 
اک آئنہ جسے زنگار تک پہنچنا ہے 

کچھ ایسے لوگ جو شانوں پہ سر نہیں رکھتے 
مگر یہ زعم کہ دستار تک پہنچنا ہے 

وہ دن گئے کہ کوئی اشک پونچھنے آئے 
یہاں تو آپ کو غم خوار تک پہنچنا ہے

نورین طلعت عروبہ


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...