Urdu Deccan

Wednesday, April 5, 2023

اوج یقوبی

یوم پیدائش 10 مارچ 1913

حادثے ہم سے گلے مِل کے پشیماں ہونگے
ہم بہ ہر دَور حریفِ غمِ دوراں ہونگے

رُخ ہواؤں کا بدلتا تھا کبھی جن کے لئے
کیا خبر تھی وہ سفینے تہِ طوفاں ہونگے 

تپنے دے اور ذرا آتشِ غم میں دل کو
جتنے جوہر ہیں بیک وقت نُمایاں ہونگے

ساری دُنیا تو نہ کھائے گی تبسم کا فریب
کچھ تو انداز شناسِ غمِ پنہاں ہونگے

 غم مرتب ہو تو سنجیدگی آجاتی ہے
 ورنہ دنیا میں کئی چاک گریباں ہونگے
 
ضبط فطرت کے تقاضوں سے نہ جیتے گا کبھی
دل جو تڑپے گا تو آنسو سرِ مژگاں ہونگے

آپ زُلفوں کو سنواریں کہ پریشان رکھیں
ہونے والے تو بہر حال پریشاں ہونگے 

ہم تو خیر اہلِ وفا ٹھیرے ہمارا کیا ہے
آپ کو مشقِ جفا کم ہے، پشیماں ہونگے

درد جب دیتا ہے سانسوں کو بھی آہوں کا خراج
اوج انفاس وھَاں شعلہ بَداماں ہونگے

اوج یقوبی


 

رضوان رضی

یوم پیدائش 09 مارچ 1997

کوئی خوشی سے تو ہر گز جدا نہیں ہوتا
بچھڑنے والے میں تجھ سے خفا نہیں ہوتا

پرندے اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں
چمن میں ایک سا موسم سدا نہیں ہوتا

ہم اپنی طرز سے ہی زندگی گزارتے ہیں
ہمارے ہاتھوں پہ کچھ بھی لکھا نہیں ہوتا

ہوائیں توڑ تو دیتی ہیں بے دلی سے مگر
شجر سے ٹوٹ کے پتا ہوا نہیں ہوتا 

فقیہہ شہر تو مسجد بنا کے نازاں ہے
مگر وہ لوگ کہ جن کا خدا نہیں ہوتا

رضوان رضی


 

نصرت ظہیر

یوم پیدائش 09 مارچ 1951

کچھ خبر نہیں نصرت لوگ کیسے جیتے ہیں
موت کے بگولوں میں زندگی کے صحرا میں

نصرت ظہیر


 

قمر جلال آبادی

یوم پیدائش 09 مارچ 1917

کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا
لے لوُں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا

مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رند
کرلوں گا میکدوں کا سفر، اس کے بعد کیا

ہوگا جو شوق حسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا

شعر و سخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا

موج آۓ گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر، اُس کے بعد کیا

اک روز موت زیست کا در کھٹکھٹاۓ گی
بجھ جائے گا چراغِ قمر، اُس کے بعد کیا

اٹی تھی خاک خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اس کے بعد کس کو خبر، اُس کے بعد کیا

قمر جلال آبادی



قطب کامران

یوم پیدائش 08 مارچ 1966

رات خوابوں میں برستے رہے پتھر کتنے
پر بنے شیش محل ذہن کے اندر کتنے

میں اترتا گیا الفاط کی گہرائی میں
مجھ کو ملتے رہے افکار کے جوہر کتنے

شب کی آنکھوں میں رہی نیند کی مستی پھر بھی
اشک کی سیل بہا لے گئی دفتر کتنے

کامراںؔ موسمِ تنہائی بھی کیا موسم تھا
برف باری تھی اور آنکھوں میں تھے منظر کتنے

قطب کامران


 

شیخ علیم اسرار

نظم :- عورت ترے مقامِ تقدس کو ہے سلام

رب کی نوازشات میں پہلی ہے تو عطا 
نازک سا آبگینہ تو الفت کی انتہا 

تیری ہی گود بچے کی پہلی ہے درس گاہ 
ایثار تیرا وصف ہے بے لوث تیری چاہ 
کتنے ہی زاویوں کو بدلتی ہے اک نگاہ 
مشکل میں زندگی کی منّور کرے تو راہ

نظمِ جہاں میں ضبط کی تنویر بے بہا
احساس منفرد تری تمثیل ہے جدا

مہکے ترےوجود سے ہرایک انجمن 
تو آبرو سراپا ہے تو رونقِ چمن 
سب سے جدا ہے تیری اداؤں کا بانکپن 
تو ہم سفر کہ جس کا وفادار ہے چلن

توہےحیا کا رنگ سلاست کا آئینہ
مشکل سمجھنا تیراہے آسان فلسفہ

تو کائنات کا ہے مجسم حسین رنگ
آواز تیری جیسے کہ بجتا ہے جل ترنگ
تو کارزارِ عشق کی ہے جاوداں امنگ
امکان میں سدا رہی تیرے سبب سے جنگ

دنیا میں تو ہے عزم کی تصویر ماورا
خوبی سے تو نبھاتی ہے ہررشتہ باخدا

توہمنوا رفیق ہے تو مہربان غمگسار
عظمت نشان جیسے مچلتاہے آبشار
جھونکا ہواکا مست ہےتو موسمِ بہار 
انسانیت کے روپ کا دم سے ترے نکھار

تو خلق بے نیاز تو معصوم سی دعا
خوددار خود نما کہ ہے تو محورِ انا 

ضامن ہے تو نجات کی ممتا کا آسماں 
تو پیکرِ خلوص محبت کی کہکشاں
دریا کی موج تو ہے توکشتی کا بادباں 
مہر و وفا کی لاج ہے تو ضبط کا مکاں

اسرار دلنشین کہ دلبر ہے دلربا 
تو بحر بے کراں ہے ظرافت سے آشنا
عورت ترے مقامِ تقدس کو ہے سلام

شیخ علیم اسرار



ابھشیک کمار امبر

یوم پیدائش 07 جنوری 2000

راہ بھٹکا ہوا انسان نظر آتا ہے 
تیری آنکھوں میں تو طوفان نظر آتا ہے 

پاس سے دیکھو تو معلوم پڑے گا تم کو 
کام بس دور سے آسان نظر آتا ہے 

اس کو معلوم نہیں اپنے وطن کی سرحد 
یہ پرندہ ابھی نادان نظر آتا ہے 
 
آئی جس روز سے بیٹی پہ جوانی اس کی 
باپ ہر وقت پریشان نظر آتا ہے 

جب سے تم چھوڑ گئے مجھ کو اکیلا امبر
شہر سارا مجھے ویران نظر آتا ہے 

ابھشیک کمار امبر


 

سید سبط جعفر زیدی

یوم پیدائش 07 مارچ 1957

کون کہتا ہے مجھے شان سکندر دے دے
میرے معبود مجھے فقر ابو ذر ؓ دے دے

مالک لوح و قلم، بہر جہاد قلمی
مجھ کو الفاظ و مفاہیم کا لشکر دے دے

عشق جو تو نے اویس قرنی ؓ کو بخشا 
ہو جو ممکن تو مجھے اس سے فزوں تر دے دے

تاجور بھی میرے قدموں میں سعادت ڈھونڈیں
زینت سر کو جو نعلین پیمبر دے دے

جن کو سرکار نے بخشا شرف گویائی
لعل و یاقوت نہ دے، مجھ کو وہ کنکر دے دے

تیرے محبوبؐ نے جو پیٹ پے باندھا اکثر
وسعت رزق نہ دے، مجھ کو وہ پتھر دے دے

ظاہری تن کے لئے اور نہ کفن کو کپڑا
جو میرے عیب چھپا دے وہی چادر دے دے

وقت کے مرحب و عنتر سے نمٹنے کے لئے
پھر کوئی فاتح خيبر ؓ سا غضنفر دے دے

سید سبط جعفر زیدی


 

کوثر جہاں کوثر

یوم پیدائش 06 مارچ 1944

بچپن نظم

نئی نئی دنیا لگتی تھی نئے نئے سے لوگ 
کھلتی کلیاں صبح سویرے کیسے مدھم مدھم 
حیرت ہوتی پھول پہ کیسے جم جاتی ہے شبنم 
چڑیوں کی آواز سناتی گھنگرو جیسی چھم چھم 
بارش کی بوندیں گرتیں پیڑوں پہ رم جھم رم جھم 
برگد کی داڑھی کو پکڑے بچے پینگ بڑھاتے 
کوے مینا کوئل چڑیاں مل کر شور مچاتے 
ماں کے ہاتھوں کی اک خوشبو بستی تھی روٹی میں 
بنا شکر لگتا تھا میٹھا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی 
تھا کتنا معصوم سا بچپن بات نہ ہم نے جانی 
وہ پنچھی میٹھی آوازیں نور سی اجلی بھور 
پھسل گئی کیوں ہاتھ سے اپنے وہ سپنوں کی ڈور

کوثر جہاں کوثر


 

بدر ایمنی

یوم پیدائش 06 مارچ 1948

توڑ بیٹھے کہیں نہ تشنہ لبی
وہ تعلق جو چشمِ نم سے ہے
تو سفر میں سکوں کے خواب نہ دیکھ
راہ تعبیر پیچ و خم سے ہے

بدر ایمنی

 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...