Urdu Deccan

Monday, July 3, 2023

بلبل کشمیری

یوم پیدائش 22 اپریل 1922

میخانے کے در پر جو لٹکا نظر آتا ہے 
یہ شیخ حرم ہی کا کرتا نظر آتا ہے 

پاؤڈر ہے کہ چہرے پر آٹا نظر آتا ہے 
محبوب خود آرا تو بنیا نظر آتا ہے 

لڑکا نظر آتی ہے لڑکی نظر آتا ہے 
مغرب کا جو سیدھا ہے الٹا نظر آتا ہے 

ململ کا عمامہ تو لندن میں نہیں ملتا 
اے شیخ ترے سر پر ڈھاکہ نظر آتا ہے 

غائب ہیں نمازی بھی غائب ہے وہ ملا بھی 
مسجد میں مصلے پر لوٹا نظر آتا ہے 

عاشق کے جنازے پر دنیا ہی چلی آئی 
کالا نظر آتا ہے گورا نظر آتا ہے 

واعظ نے کٹا ڈالی میخانے میں پھر بولے 
کیا چور کی داڑھی میں تنکا نظر آتا ہے

بلبل کشمیری



عذرا تبسم

یوم پیدائش 22 اپریل 1965

غرور جس کے خلوص و وفا پہ تھا مجھ کو
کیا اُسی نے ہے ساماں مرے مٹانے کا

ہمارا اشک بھلا شعلہ سرد کیا کرتا
مزاج ہم نے بنایا دلھن جلانے کا

انا نے سر نہ جھکانے دیا کبھی مجھ کو
سلیقہ ورنہ مجھے تھا اسے منانے کا

گلہ رقیب کا کرتیں بھی کس طرح عذرا
انھیں ملانہ کوئی دوست بھی ٹھکانے کا

عذرا تبسم


 

Sunday, July 2, 2023

مُشیر کاظمی

یوم پیدائش 22 اپریل 1924

رات ہم نے بھی یوں خوشی کر لی
دل جلا کر ہی روشنی کر لی 

آتے جا تے رہا کرو صاحب 
آنے جانے میں کیوں کمی کر لی

کانٹے دامن تو تھام لیتے ہیں
کیسے پھولوں سے دوستی کر لی 

ہم نے اک تیری دوستی کے لئے 
ساری دنیا سے دشمنی کر لی 

تیری انکھوں کی گہری چھیلوں میں
غرق ہم نے یہ زندگی کرلی

ہم نے اُن سے نظر ملا کے مُشیر 
کتنی بیچین زندگی کرلی

 مُشیر کاظمی


 

سیدہ تسنیم بخاری

یوم پیدائش 21 اپریل 

حادثہ رونما نہیں ہو گا
دشت ایسی جگہ نہیں ہو گا

اک ترے نام کے سوا لب پر
دوسرا , مدعا نہیں ہو گا

زندگی ہجر میں گزاروں گی
عشق ہے, بارہا نہیں ہو گا

تو میسر نہ ہو سکے گا مجھے
ورنہ ہونے کو کیا نہیں ہو گا

صرف تصویر کے سہارے پر
دور دل کا خلا نہیں ہو گا

کیا ستم ہے بچھڑ کے آنکھوں کو
خواب کا آسرا نہیں ہو گا

ہوں گے دنیا میں اور بھی لیکن
شہر لاہور سا نہیں ہو گا

بیوفائی کا رنج سہہ لوں گی
زخم دل کا ہرا نہیں ہو گا

جس طرح ہم جدا ہوئے تسنیم
 کوئی ایسے جدا نہیں ہو گا

سیدہ تسنیم بخاری



بختیار رضیا

یوم پیدائش 21 اپریل 1922

اتنا ہے زندگی کا تعلق خوشی کے ساتھ 
ایک اجنبی ہو جیسے کسی اجنبی کے ساتھ
 
سورج افق تک آتے ہی گہنا گیا یہاں 
کچھ تیرگی بھی بڑھتی رہی روشنی کے ساتھ 

حکام کا سلوک وہی ہے عوام سے 
ابن زیاد کا تھا جو ابن علی کے ساتھ 

اللہ رے تغافل چارہ گران وقت 
سنتے ہیں دل کی بات مگر بے دلی کے ساتھ
 
طبقوں میں رنگ و نسل کے الجھا کے رکھ دیا 
یہ ظلم آدمی نے کیا آدمی کے ساتھ

بختیار رضیا


 

بینا خان

یوم پیدائش 20 اپریل 

اس سے پہلے کہ وہ بکھر جائے
 اُس سے کہئے کہ اپنے گھر جائے
 
 روشنی کی طلب میں نکلی ہوں
  گھر اندھیرا نہ دل میں کر جائے
 
شہر ، جنگل منافقین کا ہے
 کیسے پھر آدمی کاڈر جائے؟
 
دفن ہونے تو دے محبت کو
اُس سے کہہ دو ذرا ٹھہر جائے

 اب نہ ہوگی منافقت ہم سے 
 دل ادھر جائے یا اُدھر جائے
 
 خوش گمانی میں اُس کو جینے دو
  "وہ نقاب اُٹھتے ہی نہ مر جائے"
  
بینا خان

مائل نہیں تھا محفلِ دلبر میں آگیا 
دل تیرے التفات کے چکّر میں آگیا

تیری طرح ہے غم تیرا آوارۂ مزاج
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

اپنا بھی جادو چلتا تھا سارے جہان میں 
پھر یہ ہوا وہ سِحر کے پیکر میں آگیا

خودداری کا سوال تھا ؛سنتے کسی کی کیا
چپ چاپ اُنکی بزم سے میں گھر میں آگیا 

خاموشی چیختی ہے کہ تنہائیوں کا رنگ
دیوار پر ؛ دریچوں میں ؛ ہر در میں آگیا 

بینا نہیں ہے بوجھ اٹھانے کی اب سکت 
افسردگی کا رنگ مقدر میں آگیا

بینا خان



آلِ عمر

یوم پیدائش 20 اپریل 1995

ایک دفعہ وہ مجھے دل میں تو آنے دیتا 
میں اسے شام نہیں دیتا زمانے دیتا 

آپ کے غم پہ بہت کام کیا ہے میں نے 
اب میں روتا ہوں تو آنسو نہیں آنے دیتا 

وہ مجھے ایک سے پہلے نہیں سونے دیتی 
میں اسے خواب سے جلدی نہیں جانے دیتا 

رب کے آگے تو تر و تازہ گیا ہوتا میں 
وقت کچھ دیر مجھے ٹیک لگانے دیتا 

شعر کا رزق ان آنکھوں میں ہے لیکن مرے دوست 
دل مجھے ہونٹ سے اوپر نہیں جانے دیتا 

ہر حسیں لڑکی کو تسلیم کیا کرتا ہوں
کوئی مصرع نہیں میں گرنے گرانے دیتا 

آلِ عمر


 

اظہر بخش اظہر

یوم پیدائش 20 اپریل 1952

شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں 
وہ ترچھی نظروں میں سیدھا نشانہ لے کے چلتے ہیں 

ہماری میزبانی سے نہ گھبرایا کرو لوگو 
ہم اپنے ساتھ اپنا آب و دانہ لے کے چلتے ہیں 

ذرا پہچان کر بتلاؤ تو یہ کون ہیں کیا ہیں 
کہ بادل جن کے سر پر شامیانہ لے کے چلتے ہیں 

کہ ہم اہل ادب ہم کیا کریں گے ہمسری ان کی 
جو اپنے ساتھ سرکاری خزانہ لے کے چلتے ہیں 

سبھی کو علم ہے گو پھول ان کو کچھ نہیں کہتے 
یہ بھنورے ہیں مزاج عاشقانہ لے کے چلتے ہیں 

ٹھکانوں کی نہ سوچو آپ اظہرؔ گھر سے تو نکلو 
پرندے ساتھ میں کب آشیانہ لے کے چلتے ہیں

اظہر بخش اظہر


 

توقیر زیدی

یوم پیدائش 19 اپریل 1970

پیکر خاکی یہ مانا موت سے دو چار ہے 
زندگی تیرا مگر رستہ بہت دشوار ہے 

جو ہے مفلس وہ زمانے میں ذلیل و خوار ہے 
مال و زر ہو پاس جس کے صاحب کردار ہے
 
رس رہا ہے خوں بدن سے بھیگتا ہے پیرہن 
زخم ہے میرے جگر کا یا کہ لالہ زار ہے 

خون دل سے میں نے سینچا ہے تجھے اے زندگی 
میرے ہی دم سے تو یہ چہرا ترا گلزار ہے 

بھاپ بن کر اڑ گیا میری رگ جاں سے لہو 
بارشیں اب خون کی ہوں گی یہی آثار ہے 

جانے کس کی جستجو یہ کر رہے ہیں روز و شب 
چاند سورج کے لئے اک منزل دشوار ہے 

بک رہے ہیں دین و ایماں بک رہے ہیں جسم و جاں 
یہ جہان آرزو اک مصر کا بازار ہے 

آپ کے دل کا معمہ ذہن نے حل کر لیا 
آپ کے انکار ہی میں آپ کا اقرار ہے 

منفرد میری زباں ہے خوب تر میرا بیاں 
فکر کا توقیرؔ اک دریا پس دیوار ہے

توقیر زیدی


 

اعجاز جودھ پوری

یوم پیدائش 18 اپریل 1921

اس بڑے کارِ زمانہ سے نبٹنے کے لیے
لوگ لے لے کر حیاتِ مختصر آتے رہے

اعجاز جودھ پوری


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...