Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

محمد مسعود اختر

 یوم پیدائش 19 جون


تیر شکستہ تھے ، تلوار پرانی تھی 

میری جیت پہ دشمن کو حیرانی تھی


پانی میں اک عکس تھا شام سہانی کا

باغ میں لیکن تنہا رات کی رانی تھی


 جنگ سہی پر بچوں کو پیاسا رکھنا 

 اس بزدل کی سوچ ہی غیر انسانی تھی


جس دن میرے دل میں عید کا چاند کھلا 

شہر کے سب بازاروں میں ویرانی تھی


کیسے دن تھے ، کیسی جاگتی راتیں تھیں

خواب تھے اور تعبیروں کی نگرانی تھی


ایک زمانہ تھا جب سب کچھ بہتر تھا

کچھ حد تک جینے میں بھی آسانی تھی


جوگن کی آنکھوں میں آنسو ٹھہرا تھا 

جوگی کے ہونٹوں پر ایک کہانی تھی


محمد مسعود اختر


امجد حسین حافظ کرناٹکی

 یوم پیدائش 18 جون 1964


رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو

دوست دشمن سے ملتے ملاتے رہو


یہ اندھیرے ہیں مہمان اک رات کے

تم مگر صبح تک جگمگاتے رہو


میں بھلانے کی کوشش کروں گا تمہیں

تم مجھے روز و شب یاد آتے رہو


راہ کے پیچ و خم خود سلجھ جائیں گے

سوئے منزل قدم کو بڑھاتے رہو


ابر بن کر برستے رہو ہر طرف

عمر شادابیوں کی بڑھاتے رہو


موت آئے تو خاموش کر جائے گی

زندگی گیت ہے اس کو گاتے رہو


تازہ دم مجھ کو رکھنا ہے حافظؔ تو پھر

ہر قدم پر مجھے آزماتے رہو


امجد حسین حافظ کرناٹکی


خالد شریف

 یوم پیدائش 18 جون 1947


رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا

جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا


دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست

اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا


کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی

ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا


خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان

وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا


خالد شریف


محی الدین ہمدم

 یوم پیدائش 16 جون 1956


عمر رفتہ کے مہ و سال پہ رونا آیا

بخت خفتہ کے برے حال پہ رونا آیا


مال و دولت پہ ہمیں فخر تھا کتنا اپنے

موت آئی تو زر و مال پہ رونا آیا


اس کی رحمت نے بچایا ہمیں بے شک لیکن

ہمیں خود اپنے ہی اعمال پہ رونا آیا


بات تک رکھتے ہیں محدود جو نیکی اپنی 

ایسے اصحاب کے اقوال پہ رونا آیا


دکھ پہ اوروں کے تجھے دیکھ کے روتا،مجھ کو

ہمدم خستہ ترے حال پہ رونا آیا



محی الدین ہمدم

حاشر افنان

 یوم پیدائش 17 جون 


ہم پھر نہ مل سکے کبھی الفت کی راہ میں 

حائل غمِ فراق تھا قسمت کی راہ میں


اس کا تھا یہ گمان ملے گا جہاں مجھے 

پایا نہ ایک ذرہ بھی حسرت کی راہ میں


کیا حال کر دیا ترے دل کے مریض کا 

کانٹے بچھا دیے گئے چاہت کی راہ میں


کل کی خبر نہیں ہے ہمیں پر یقین ہے 

جلنا پڑے گا تم کو محبت کی راہ میں


اپنے لیے امید کا رستہ چنو میاں

کچھ بھی نہیں ملے گا ملامت کی راہ میں


لینا ہے کام صبر و تحمل سے دوستو

پتھر پڑیں گے حق و صداقت کی راہ میں


کردے کرم کی ایک نظر ہے قضا قریب 

شاید کہ اب ملیں تجھے جنت کی راہ میں

 

پہلے پہل رکاوٹیں آئیں گی سوچ لے  

حاشر سنبھل کے چلنا محبت کی راہ میں


  حاشر افنان


امر روحانی

 یوم پیدائش 17 جون


خود کو اوقات سے گراتی ہے

برق جب آشیاں جلاتی ہے


ہم مسافر ہیں ایسی منزل کے

دو جہانوں کو جو ملاتی ہے


لوگ مجذوب جانتے ہیں جسے

آگہی رازداں بناتی ہے


روشنی ، تیرگی بہ ظرفِ عطا

اک دکھاتی ہے، اک چھپاتی ہے


زرد پتوں کی رسمِ ماتم پر

بادِ صر سیٹیاں بجاتی ہے


لفظ تو پتلیوں کے جیسے ہیں

یہ زباں ڈوریاں ہلاتی ہے


عاشقی ہے مثالِ خود زدگی

آگ جلتی ہے پھر جلاتی ہے


تشنگی اور طلب الگ ہیں امـؔر

ایک مٹتی ہے اک مٹاتی ہے


امر رُوحانی


نظام ہاتف

 یوم پیدائش 16 جون 1949


کس نے قسمت میں مرے خانہ بدوشی لکھ دی

اب کے ہجرت کروں ایسی کہ مقامی ہو جاؤں


نظام ہاتف


شاعر علی راحل

 وہ مَلا رات خواب میں جیسے

 تیرتا عکس آب میں جیسے


دیکھ کر اُس کو دل ہُوا بےچین

وه بھی تها اضطراب میں جیسے


یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے

دُھن بجی ہَو رُباب میں جیسے


اِسطرح گھل گیا ہے وہ مجھ میں

گھلتی شکّر ہے آب میں جیسے


کھوج میں اُس کی دَربدر بهٹکے 

پیاس کوئی سَراب میں جیسے 


ذہن و دل پر وہ نقش ہے رَاحِلؔ

حَرف کوئی کتاب میں جیسے


شاعر علی رَاحِلؔ 


محمد عارف

 یہ تھکی تھکی سی مُسافتیں اِنہیں ہو سکے تو گُزار دے 

میری چارہ گر، میری ہمسفر، مجھے پِھر نویدِ بہار دے


مِری زندگی کے یہ سِلسِلےکہیں مَرقدوں سے تھےجا مِلے 

مَیں کبھی کا اِن میں اُتر گیامُجھےتُوبھی مُشتِ غُبار دے


یہ اندھیری رات یہ وحشتیں یہ شِکستہ چاپ یہ آہٹیں

تِری سِمت میرےقدم اُٹھیں مجھےحوصلے وہ اُدھار دے


کوئی کِس کے کِتنا قریب ہے یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے

مِری ہم نفس، مِرے پاس آ مِری زندگی کو سنوار دے


سَرِ راہ خود کو تو کھو دیا رگِ جاں میں درد سمو دیا

تِری حدسے پِھرنہ نِکل سکوں مجھےبازوؤں کےحصار دے


یہ جوقُربتوں میں ہیں فاصلےجومِلےبھی کوئی توکیامِلے 

تِری نذر کرتا ہُوں چاہتیں مجھے نفرتوں کے مَزار دے


محمد عارف


پیر محمد علی نعیمی

 نعت رسول صلی اللہ علیہ و 


کیا تذکرہ کروں میں نبی کی حیات کا

ذاکر ہے خود خدا مرے آقا کی ذات کا


ان کے طفیل رب نے بناکر یہ کائنات

مختار کردیا ہے انہیں کائنات کا


آقا کا یہ کرم بھی بڑا لا زوال ہے

ملتا رہے گا فیض سدا معجزات کا


نور نبی سے ملتی ہے عالم کو روشنی

صدقہ ہے یہ حضور کی ذات و صفات کا


فرمان مصطفی تو ہے ہر دور میں اٹل

کوئی بدل نہیں مرے آقا کی بات کا


آقا کی اس حدیث میں جینے کا ہے ہنر

خاموشی میں ہی رکھا ہے رستہ نجات کا


میرا جو نام ان کے غلاموں میں آگیا

احسان ہے علی پہ یہ آقا کی نعت کا


پیر محمد علی نعیمی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...