Urdu Deccan

Sunday, January 15, 2023

اسلم غازی پوری

یوم پیدائش 11 جنوری 1955

چلتا ہوں تو لگ جاتی ہے ہر گام پہ ٹھوکر
رکتا ہوں تو ہے خوف نہ توہینِ سفر ہو

اسلم غازی پوری


بے غم وارثی

یوم پیدائش 11 جنوری 1955

اپنے ہی گھر میں غیر جیسے ہیں
اس سے بدتر کوئی سزا ہوگی

بے غم وارثی



نسیم منان

یوم پیدائش 11 جنوری 1970

ہر چیز بدلتی ہے تو پھر کیوں نہ یقیں ہو
چاہت بھی ترے دل کی بدلتی ہی رہے گی

نسیم منان



کیف احمد صدیقی

یوم پیدائش 12 جنوری 1943

عجیب قسم کا پیکر ہوا میں اڑتا تھا
کل اِک پرندۂ بے پَر ہوا میں اڑتا تھا

ذراسی دیر میں سورج لہو لہان ہوا
نہ جانے کون ساخنجر ہوا میں اڑتا تھا
 
میں قتل گاہ ہوسِ میں پڑا ہوا تھا مگر
ترپ تڑپ کے مرا سَر ہوا میں اڑتا تھا

حصارِخون میں سمٹی ہوئی تھی روح مگر
میں اپنے جسم کے باہر ہوا میں اڑتا تھا

چہارسمت مسلط سیاه آندھی تھی
 کسی کا برگِ مقدر ہوا میں اڑتا تھا
 
سپاهِ شورسے پامال تھا محاذِ خلاء
سکوت مرگ کا لشکر ہوا میں اڑتا تھا

سفید جھوٹ کے مانند کتنا روشن تھا
سیاہ سچ کا جو پیکر ہوا میں اڑتا تھا

تمام کوہ نظر آرہے تھے زیرِ زمیں
مگر ہرایک سمندر ہوا میں اڑتا تھا

کچھ اتنا تیز تھا طوفان برف باری کا
کہ ہر چٹان کا پتھر ہوا میں اڑتا تھا

جنابِ کیف یہ معراج شاعری تو نہیں
کہ رات ذہنِ سخنور ہوا میں اڑتا تھا

کیف احمد صدیقی 

کیا جانے کتنے ہی رنگوں میں ڈوبی ہے 
رنگ بدلتی دنیا میں جو یک رنگی ہے 

منظر منظر ڈھلتا جاتا ہے پیلا پن 
چہرہ چہرہ سبز اداسی پھیل رہی ہے 

پیلی سانسیں بھوری آنکھیں سرخ نگاہیں 
عنابی احساس طبیعت تاریخی ہے 

دیکھ گلابی سناٹوں میں رہنے والے 
آوازوں کی خاموشی کتنی کالی ہے 

آج سفیدی بھی کالا ملبوس پہن کر 
اپنی چمکتی رنگت کا ماتم کرتی ہے 

ساری خبروں میں جیسے اک زہر بھرا ہے 
آج اخباروں کی ہر سرخی نیلی ہے 

کیفؔ کہاں تک تم خود کو بے داغ رکھو گے 
اب تو ساری دنیا کے منہ پر سیاہی ہے 

کیف احمد صدیقی
 


ندیم ماہر

یوم پیدائش 10 جنوری 1970

ہم بزرگوں کی آن چھوڑ آئے 
خاندانی مکان چھوڑ آئے 

اس قبیلے میں سارے گونگے تھے 
ہم جہاں پر زبان چھوڑ آئے 

اس کا دروازہ بند پایا تو 
دستکوں کے نشان چھوڑ آئے 

روٹی کپڑے مکان کی خاطر 
روٹی کپڑا مکان چھوڑ آئے 

ایک اس کو تلاش کرنے میں 
ہم زمیں آسمان چھوڑ آئے 

اب سفر ہے یقین کی جانب 
وسوسے اور گمان چھوڑ آئے

ندیم ماہر



جمیل حیدر شادؔ

یوم پیدائش 10 جنوری 1953

اب قدردانیوں کا سزاوار میں نہیں
یہ لطف ، یہ کرم ، یہ عنایات کیا کروں

جمیل حیدر شادؔ



بدیع الزماں خاور

یوم پیدائش 10 جنوری 1938

آگ ہی کاش لگ گئی ہوتی 
دو گھڑی کو تو روشنی ہوتی 

لوگ ملتے نہ جو نقابوں میں 
کوئی صورت نہ اجنبی ہوتی 

پوچھتے جس سے اپنا نام ایسی 
شہر میں ایک تو گلی ہوتی 

بات کوئی کہاں خوشی کی تھی 
دل کو کس بات کی خوشی ہوتی 

موت جب تیرے اختیار میں ہے 
میرے قابو میں زندگی ہوتی 

مہک اٹھتا نگر نگر خاورؔ 
دل کی خوشبو اگر اڑی ہوتی

بدیع الزماں خاور



حنیف شارب

یوم پیدائش 10 جنوری 1960

ٹہرے ہوں محبت کے خریدار جہاں پر 
کیسے میں وہاں جاؤں بکے پیار جہاں پر 

میں امن کا حامی ہوں , کسی طور نہ جاؤں 
ہر شخص لئے پھرتا ہو تلوار جہاں پر 

میں بھوک مٹانے کے لئے جاتا ہوں اکثر 
موجود بہت سارے ہوں دربار جہاں پر 

رحمت کے فرشتے کبھی اس گھر نہیں آتے 
ہوتی ہو شب و روز ہی تکرار جہاں پر 

انصاف کسے کب ملے اس تنگ نگر میں 
ہونٹوں پہ ہو پابندیء اظہار جہاں پر 

کھلتے ہی نہیں پھول وفاؤں کے اے صاحب 
ہر روز گرے صبر کی دیوار جہاں پر

اخلاص و محبت وہاں پھر کیسے ہو قائم
 رہتے ہوں فقط سارے ہی مکار جہاں پر 

وہ ملک کسی طور بھی آگے نہیں بڑھتا 
بکتے ہوں حکومت کے وفادار جہاں پر 

نفرت سدا پروان چڑھے کیوں نہ بہ کثرت 
مٹ جاتے ہوں سچائی کے کردار جہاں پر

شارب کو نہ لے جاؤ وہاں , میرے اے ہمدم 
تعمیر ہوں نفرت بھرے مینار جہاں پر 

حنیف شارب
 


رباب رشیدی

یوم پیدائش 10 جنوری 1940

تجھ سے جب تک اس طرح اپنی شناسائی نہ تھی 
اپنے گھر جیسی تو صحرا میں بھی تنہائی نہ تھی 

اب تو رشک آتا ہے خود اپنے ہی جملوں پر ہمیں 
اس سے پہلے تھی مگر یہ شان گویائی نہ تھی 

اب مجھے کیوں اپنے مستقبل کا آتا ہے خیال 
آج تک شاید مرے ہم راہ دانائی نہ تھی 

تجربوں کے واسطے کچھ لغزشوں کی چھوٹ ہے 
اب میں سمجھا کیوں مجھے ہر بات سمجھائی نہ تھی 

عالم حیرت میں گزرے ہیں وہاں سے بھی جہاں 
زندگی اپنی طرح بے عکس و بے آئینہ تھی 

وہ کہاں ہے منظروں میں ڈھونڈتے ہو تم جسے 
گھر سے کیوں نکلے تھے جب نظروں میں رعنائی نہ تھی 

تجھ سے ملنے تک نہ تھا خود اعتمادی کا پتا 
اور کچھ اپنی طبیعت نے جلا پائی نہ تھی 

ویسے تو اب تک بنائیں کتنی تصویریں ربابؔ 
شوق کی حد تک مگر رنگوں میں گہرائی نہ تھی

رباب رشیدی



امتیاز احمد دانش

یوم پیدائش 10 جنوری 1963

اے نظاروں مجھے کچھ غم کے سوا یاد نہیں
کب مرے شہر سے گزری تھی صبا یاد نہیں

یوں فلک پر تو ستارے تھے درخشاں لیکن
راہ ظلمات میں کب ابھری ضیا یاد نہیں

تنکے کی طرح بکھر ہی گیا تھا میرا وجود
کن گناہوں کی ملی مجھ کو سزا یاد نہیں

بے خودی میں بھلا کچھ ہوش کہاں تھا خود کو
کس طرح اپنا یہ سرمایہ لٹا یاد نہیں

تیری حساس مزاجی پہ ہنسی آتی ہے 
ایک قصہ بھی تجھے درد بھرا یاد نہیں

وقت کی بھیڑ میں ہم لوگ بھی کتنے گم ہیں
کون زندہ ہے ابھی کون مرا یاد نہیں

ہم نے ہر دور میں موسم کا اثر دیکھا ہے 
اس قدر ملک کی بگڑی تھی فضا یاد نہیں

کتنی غمناک تھی وہ شام جدائی دانش
کس طرح وقت کا سورج یہ ڈھلا یاد نہی

امتیاز احمد دانش



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...