Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

فہیم احمد صدیقی

یوم پیدائش 05 فروری 1948

تُوسمندر ہے تری ذات کا حصہ ہو جاﺅں
ایک مدت سے تمنا ہے کہ دریا ہوجاﺅں

فہیم احمد صدیقی


 

اثر رانچوی

یوم پیدائش 04 فروری 1924

نظم اردو زبان

حیف اردو پہ ابھی تک یہ سِتم جاری ہے
جانے کیوں اِس کو مِٹا دینے کی تیاری ہے
ہر زباں آپ نظروں میں بڑی پیاری ہے
صرف لے دیکے یہی اردو سے بیزاری ہے

اردو ہی بول کے اردو کو مِٹاتے کیوں ہو
تم اِسے غیر سمجھ کر کے بھگاتے کیوں ہو

اور نہ اردو پہ ظلم و سِتم ایجاد کرو
سب زبانوں کی ملکہ ہے ذرا یاد کرو
اِس کو غیروں کی زباں کہکے نہ بیداد کرو
نہ نِلکوا کے یہاں سے اِسے برباد کرو

یہیں پھولی ہے پھلی ہے یہیں رہنے دو اِسے
یہ تو مصری کی ڈلی ہے یہیں رہنے دو اِسے

اِس سے نفرت ہے تو پھر اردو میں تقریر ہے کیوں
اِس کی بربادی کی دِن رات یہ تدبیر ہے کیوں
آج فِلموں میں اِسی اردو کی تصویر ہے کیوں
پھربھی گردن میں بچاری کی ئہ شمشیر ہے کیوں

سن لو اب اِس کو مِٹانے سے مِٹے گی نہ کبھی
لاکھ تم کاٹنا چاہوگے کٹے گی نہ کبھی

کیا نہیں اِس میں مروت ہے محبت ہے نہیں
کیا بھلا اِس میں فراوانی وسعت ہے نہیں
کیا یہ بھارت زباں ہے یہ حقیقت ہے نہیں
کیا یہ بھارت کی زباں ہے یہ حقیقت ہے نہیں

پھر بھی اردو سے یہ تم کو بغاوت کیوں ہے
اِس قدر اردو سے حیرت ہے عداوت کیوں ہے

اثر رانچوی


 

آشوتوش مشرا ازل

یوم پیدائش 04 فروری 1989

یہ دولت رتبہ شہرت اور یہ ایمان مٹی ہے 
لگایا ہاتھ تب جانا فلک بے جان مٹی ہے 

لگی جب آگ پتوں میں شجر تب رو پڑا غم میں 
کہا پھر شاخ نے ہر شے یہاں نادان مٹی ہے 

لکھوں میں فلسفے کی شاعری یا گیت الفت کے 
میں شاعر ہوں مری ہر نظم کا عنوان مٹی ہے 

کتاب ہجر میں میں اب لکھوں گا وصل کے قصے 
محبت میں ملا ہے جو مجھے تاوان مٹی ہے 

آشوتوش مشرا ازل



شبیر اصغر

یوم پیدائش 04 فروری 1966

وفورِ شوق میں اک بے کلی ہے
نظرمیں ہر گلی تیری گلی ہے

ترے قدموں کی برکت سے جہاں میں
دکھی انسانیت نے سانس لی ہے

اجالے بھی گدائی پر ہیں نازاں
عجب اک نور کی دھارا چلی ہے

کریمی کی تری تمثیل کیا ہو
معافی دشمنوں کو بھی ملی ہے

خزاں کا دور دورہ تھا چمن میں
بہارِ زندگی تجھ سے چلی ہے

سخاوت ، درگزر ، الفت ، اخوت
ترے سائے میں ساری خو پلی ہے

امیں ، صادق کہےدشمن بھی جس کو
تری ہی ذات وہ دودھو دھلی ہے

شبِ غم ہنس کے جو جینا سکھائے
تری شیوہ ، تری زندہ دلی ہے

چمک جائیں گنہگاروں کے چہرے
گلی شبیرؔ وہ ان کی گلی ہے

شبیر اصغر



حاویؔ مومن آبادی

یوم پیدائش 04 فروری 1982

دکھنے میں باغ باغ ہیں ہم لوگ
ورنہ تو داغ داغ ہیں ہم لوگ

خوابِ خرگوش میں پڑے ہیں گُم 
ہائے کیا خر دماغ ہیں ہم لوگ

دل کی ہر بات مان لیتے ہیں 
کتنے سادہ دماغ ہیں ہم لوگ

کسی مسمار خُمر خانے کے
صد شکستہ ایاغ ہیں ہم لوگ

ایک دوجے سے جل رہے ہیں ہم
گویا حاویؔ چراغ ہیں ہم لوگ

حاویؔ مومن آبادی


 

Friday, February 24, 2023

چندر بھان کیفی دہلوی

یوم وفات 04 فروری 1941

کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا
کہتے ہیں جسے مصر وہ بازار ہے تیرا

تقدیر اسی کی ہے نصیبہ ہے اسی کا
جس آنکھ سے کچھ وعدۂ دیدار ہے تیرا

تا زیست نہ ٹوٹے وہ مرا عہد وفا ہے
تا حشر نہ پورا ہو وہ اقرار ہے تیرا

برچھی کی طرح دل میں کھٹکتی ہیں ادائیں
انداز جو قاتل دم رفتار ہے تیرا

کیا تو نے کھلائے چمن بزم میں کیفیؔ
کیا رنگ گل افشائی گفتار ہے تیرا

چندر بھان کیفی دہلوی



الطاف نادر

یوم پیدائش 03 فروری 1951

خوابیدہ زمانے کو جگاتے جاؤ
نقارہ اخوت کا بجاتے جاؤ
اغلط کوئی کہتا ہے اسے کہنے دو
دیوار عداوت کی گراتے جاؤ

الطاف نادر



معراج بنارسی

یوم پیدائش 03 فروری 1960

بسا دے سینے میں ایسی یارب ولائے خیرالوراﷺ کی خوشبو
نفس نفس سے اٹھے ہماری نبیﷺ کے عشق و وفا کی خوشبو

وہی ہیں تحت الثری کی نکہت وہی ہیں عرش علیٰ کی خوشبو
انہیں کے صدقے مہک رہی ہے تمام ارض و سما کی خوشبو

زمین و افلاک و لامکاں ہو مقامِ سدرہ ہو یا جناں ہو
مہک رہی ہے تمام عالم میں سیدالانبیا کی خوشبو

اِنہیں پہ صدقے ہے صبحِ اول انہیں پہ قرباں ہے یومِ آخر
انہیں میں ہے ابتدا کی خوشبو اِنہیں میں ہے انتہا کی خوشبو

یہی وہ شاداب گل ہے جس میں بسی ہے بوئے نویدِ عیسی
اسی شگفتہ گلاب میں ہے خلیلِ حق کی دعا کی خوشبو

بنا ہے معراجؔ دل کا آنگن محبتِ مصطفیٰ کا گلشن
ہماری روحِ رواں پہ قربان ہے بہشتی ہوا کی خوشبو

معراج بنارسی



اعجاز وارثی

یوم پیدائش 03 فروری 1911

کار خیر اتنا تو اے لغزش پا ہو جاتا 
پائے ساقی پہ ہی اک سجدہ ادا ہو جاتا 

وہ تو یہ کہئے کہ مجبور ہے نظم ہستی 
ورنہ ہر بندۂ مغرور خدا ہو جاتا 

قافلے والے تھے محروم بصیرت ورنہ 
میرا ہر نقش قدم راہنما ہو جاتا 

غم کے ماروں پہ بھی اے داور حشر ایک نظر 
آج تو فیصلۂ اہل وفا ہو جاتا 

یوں اندھیروں میں بھٹکتے نہ کبھی اہل خرد 
کوئی دیوانہ اگر راہنما ہو جاتا 

دل تری نیم نگاہی کا تو ممنون سہی 
درد ابھی کم ہے ذرا اور سوا ہو جاتا 

لذت غم سے ہے ضد فطرت غم کو شاید 
درد ہی درد نہ کیوں درد دوا ہو جاتا 

سن کے بھر آتا اگر ان کا بھی دل اے اعجازؔ 
قصۂ درد کا عنوان نیا ہو جاتا

اعجاز وارثی


 

فرحت حنیف وارثی

یوم پیدائش 03 فروری 1966

مکان چہرے دکان چہرے 
ہماری بستی کی جان چہرے 

اجاڑ نسلوں کے نوحہ گر ہیں 
خزاں رسیدہ جوان چہرے 

دھواں دھواں منظروں کا حصہ 
خیال خوشبو گمان چہرے  

کوئی تأثر ہو زندگی کا 
کریں خوشی غم بیان چہرے 

کوئی نہیں ہے کسی سے واقف 
نگر میں سب بے نشان چہرے 

حنیفؔ قدریں بدل چکی ہیں 
نہ ڈھونڈ وہ درمیان چہرے 

فرحت حنیف وارثی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...