کاسہء سر میں ہے میرے اک عدد نادر دماغ
لوگ ایسے ہی نہیں کہتے مجھے حاضر دماغ
دل اسیرِ غم ہوا جاتا ہے قصداً ان دنوں
ایسی صورت میں کرے تو کیا کرے آخر دماغ
کیا کسی کی بات کی گہرائی تک پہنچے گا یہ
دل کا موقف تک سمجھنے سے ہے جب قاصر دماغ
کیوں نہ حاصل ہو اسے فرماں روائی جسم کی
سر سے پا تک جب ہے ایک اک عضو پر قادر دماغ
اُس کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہ آ جانا کہیں
چہرے سے معصوم ہے لیکن ہے وہ شاطر دماغ
کیا پھنساؤگے مجھے تم سازشوں کے جال میں
مجھ کو میرے رب نے بخشا ہے میاں وافر دماغ
کی ہے کتنی بار اِسے تنبیہ ایماں نے مگر
باز آتا ہی نہیں اِلحاد سے کافر دماغ
ایک بس تم ہی نہیں ہو باہنر سنسار میں
ہم بھی کہلاتے ہیں اپنے آپ میں ماہر دماغ
شاؔد پہلی سی توجہ اب اِسے حاصل نہیں
اسلئے اعضاۓ تن میں ہے گراں خاطر دماغ
شمشاد شاد
No comments:
Post a Comment