یوم پیدائش 11 جون 1901
رنگینی ہوس کا وفا نام رکھ دیا
خودداری وفا کا جفا نام رکھ دیا
انسان کی جو بات سمجھ میں نہ آ سکی
انساں نے اس کا حق کی رضا نام رکھ دیا
خود غرضیوں کے سائے میں پاتی ہے پرورش
الفت کو جس کا صدق و صفا نام رکھ دیا
بے مہری حبیب کا مشکل تھا اعتراف
یاروں نے اس کا ناز و ادا نام رکھ دیا
فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف
اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھ دیا
یہ روح کیا ہے جسم کا عکس لطیف ہے
یہ اور بات ہے کہ جدا نام رکھ دیا
مفلس کو اہل زر نے بھی کیا کیا دئیے فریب
اپنی جفا کا حکم خدا نام رکھ دیا
گوپال متل
No comments:
Post a Comment