وفا کے موڑ پہ بِچھڑے تو ہمسفر نہ ملے
ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر، بھر نہ ملے
ہوئے ہیں ایسے ترے بعد خیر خواہ ترے
بھرے جہاں میں جنہیں اپنی بھی،خبر نہ ملے
وفا سے پال کے پودے کو ہم نے کیا کرنا
پڑے جو وقتِ ضرورت کبھی، ثمر نہ ملے
چلے تھے قافلے دل سے جو لے کے اپنوں کو
وہ جب سفر سے ہیں پلٹے تو ان کو،گھر نہ ملے
بہت عجیب سی حالت میں ہم وہاں پہنچے
کہا بھی دل نے اُسے مل لیں ہم ،مگرنہ ملے
عجیب ساجد

No comments:
Post a Comment