فطرت کا حُسن جب کسی منظر میں آ گیا
نظم حیات مرکز و محور میں آ گیا
اس نے نظر نظر سے ملائی تو رنگ و نور
پُھولوں میں آ گیا مہہ و اختر میں آ گیا
دل میں ہجوم درد جو دیکھا تو یُوں لگا
دل میرا جیسے عرصہ ء محشر میں آ گیا
اقرار عشق اس نے کیا مجھ سے جس گھڑی
ایسے لگا جہاں مر ی ٹھوکر میں آ گیا
دیوانگی کہوں کہ اسے سادگی ؛ وہ شخص
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا"
پھر کون ھو گا موتیوں ہیروں کا قدر دان
گوہر کا عکس گر کسی کنکر میں آ گیا
دیکھے ھیں ٹی وی پر وہ مناظر کے الاماں
طوفانِ بدتمیزی ہر اک گھر میں آ گیا
گلفام دشمنی بھی تو لگتی ھے دوستی
سودائے عشق جب سے مرے سر میں آ گیا
گلفام نقوی
No comments:
Post a Comment