یوم پیدائش 24 اگست 1964
خبردار! میں حق نوا آدمی ہوں
مرے پاس مت آ، برا آدمی ہوں
ہر اک درد سے ماورا آدمی ہوں
بتاؤ میں پتھر ہوں یا آدمی ہوں
مرے دل کو تم نے دھڑکنا سکھایا
مجھے اب یہ لگنے لگا آدمی ہوں
کبھی میں رہا کرتا تھا اپنے گھر میں
میں اب گھر میں رکّھا ہوا آدمی ہوں
سمجھتا رہا دیوتا کوئی مجھ کو
میں کہتا رہا بارہا، آدمی ہوں
تری یاد اور میرے غم ہمسفر ہیں
میں تنہا نہیں قافلہ آدمی ہوں
جو قیس اور فرہاد کا سلسلہ ہے
اسی زمرے کا تیسرا آدمی ہوں
مجھے منتروں کی ضرورت نہیں ہے
کئی سانپوں کا میں ڈسا آدمی ہوں
میں اب ہوگیا ہوں کماؔل اتنا چھوٹا
مجھے لگتا ہے میں بڑا آدمی ہوں
احمد کمال حشمی
No comments:
Post a Comment