Urdu Deccan

Sunday, September 26, 2021

کرامت علی کرامت

 یوم پیدائش 23 سپتمبر 1936


گلاب مانگے ہے نے ماہتاب مانگے ہے

شعور فن تو لہو کی شراب مانگے ہے


وہ اس کا لطف و کرم مجھ غریق عصیاں سے

گناہ مانگے ہے اور بے حساب مانگے ہے


ہوس کی باڑھ ہر اک باندھ توڑنا چاہے

نظر کا حسن مگر انتخاب مانگے ہے


کہاں ہو کھوئے ہوئے لمحو! لوٹ کر آؤ

حیات عمر گزشتہ کا باب مانگے ہے


مرے کلام میں طاؤس بھی ہے شاہیں بھی

سناں کے ساتھ مرا فن رباب مانگے ہے


چڑھا رہا ہے صلیبوں پہ ہم کو صدیوں سے

زمانہ پھر بھی مقدس کتاب مانگے ہے


نہ جانے کتنی گھٹائیں اٹھی ہیں راہوں میں

مگر ہے پیاس کہ ہر دم سراب مانگے ہے


ہے زخم خوردہ مرے دل کا آئنہ ایسا

خرد کی تیغ سے تھوڑی سی آب مانگے ہے


وہ میری فہم کا لیتا ہے امتحاں شاید

کہ ہر سوال سے پہلے جواب مانگے ہے


بکھر گیا تھا جو کل رات کرچیوں کی طرح

مری نگاہ وہ ٹوٹا سا خواب مانگے ہے


کرامت اس سے جو پوچھوں کہ زندگی کیا ہے

جواب دینے کے بدلے حباب مانگے ہے


کرامت علی کرامت


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...