کون ہے مجھ میں یہ خدشات کا بونے والا
ذہن کے پھول میں کانٹے سے چبھونے والا
انتقام ایسا لیا ذوقِ متانت نے کہ اب
ہنسنے والا ہے کوئی مجھ پہ نہ رونے والا
کروٹیں لیتے ہیں معصوم زمانے مجھ میں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا
ہارنے والے پہ اتنا ہی سکوں طاری ہے
جتنا مسرور ہے مغلوب نہ ہونے والا
اجنبی رہ نہیں سکتا کسی صورت لوگو!
اپنی خوشبو مری سانسوں میں پرونے والا
میں اُسے یاد رکھوں گا وہ بُھلا دے گا مجھے
اور کچھ اس کے علاوہ نہیں ہونے والا
یاسؔ کی چال سے اے سطح نشینو! بچنا
تہہ میں پہنچاکے وہ تمکو ہے ڈبونے والا
نور محمد یاس

No comments:
Post a Comment