شہر وحشت سے اب نکال ہمیں
میرے دل مہرباں سنبھال ہمیں
بگڑا دل میرا دلفریبی مزاج
کچھ سدھرنے کا دو خیال ہمیں
حل نہیں آتشیں مزاج ہے دن
ڈستا ہے شام کا سوال ہمیں
گھر سے میں دربدر ہوں دشت جنوں
پاؤں میں بیڑیاں یوں ڈال ہمیں
دھڑکنیں تھم گئی یوں دل کی مری
تسکیں درکار ماہ سال ہمیں
مضطرب دل ہے وحشی ہجر کی شب
عشق شائق کیا نڈھال ہمیں
فاروق شائق سانگو
No comments:
Post a Comment