Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

عرفی آفاقی

 یوم پیدائش 22 دسمبر 1936


وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا

بس ایک چھلاوے سا کوئی دم کو ملے گا


انجانی زمینوں سے مجھے دے گا صدا وہ

نیرنگ نوا شوق کی سرگم کو ملے گا


میں اجنبی ہو جاؤں گا خود اپنی نظر میں

جس دم وہ مرے دیدۂ پر نم کو ملے گا


جو نقش کہ ارژنگ زمانہ میں نہیں ہے

اس دل کے دھڑکتے ہوئے البم کو ملے گا


رت وصل کی آئے گی چلی جائے گی لیکن

کچھ رنگ تو یوں ہجر کے موسم کو ملے گا


یہ دل کہ ہے ٹھکرایا ہوا سارے جہاں کا

گھر ایک یہی ہے جو ترے غم کو ملے گا


پتھر ہے تو ٹھوکر میں رہے پائے طلب کی

دل ہے تو اسی طرۂ پر خم کو ملے گا


گر شیشۂ مے ہے تو ہو اوروں کو مبارک

ہے جام جہاں بیں تو فقط جم کو ملے گا


لہراتے رہیں گے چمنستاں میں شرارے

خار و خس و خاشاک ہی عالم کو ملے گا


معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری

صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا


عرفی آفاقی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...