یوم پیدائش 22 دسمبر 1936
وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا
بس ایک چھلاوے سا کوئی دم کو ملے گا
انجانی زمینوں سے مجھے دے گا صدا وہ
نیرنگ نوا شوق کی سرگم کو ملے گا
میں اجنبی ہو جاؤں گا خود اپنی نظر میں
جس دم وہ مرے دیدۂ پر نم کو ملے گا
جو نقش کہ ارژنگ زمانہ میں نہیں ہے
اس دل کے دھڑکتے ہوئے البم کو ملے گا
رت وصل کی آئے گی چلی جائے گی لیکن
کچھ رنگ تو یوں ہجر کے موسم کو ملے گا
یہ دل کہ ہے ٹھکرایا ہوا سارے جہاں کا
گھر ایک یہی ہے جو ترے غم کو ملے گا
پتھر ہے تو ٹھوکر میں رہے پائے طلب کی
دل ہے تو اسی طرۂ پر خم کو ملے گا
گر شیشۂ مے ہے تو ہو اوروں کو مبارک
ہے جام جہاں بیں تو فقط جم کو ملے گا
لہراتے رہیں گے چمنستاں میں شرارے
خار و خس و خاشاک ہی عالم کو ملے گا
معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری
صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا
عرفی آفاقی
No comments:
Post a Comment