یوم وفات 29 جنوری 1963
مرے ساتھ آئے رنگِ بزم جاناں کون دیکھے گا
دل و جاں نذر دے کر خونِ ارماں کون دیکھے گا
نہ گھراؤ کرے گا کون دعویٰ خونِ ناحق کا
سرِ محشر تمہیں سردر گریباں کون دیکھے گا
دلِ بیتاب ہوگا جاکے رُسوا ان کی محفل میں
ارے ناداں سوئے ناخواندہ مہماں کون دیکھے گا
خدارا درد کا میرے اثر تم بھی نہ لے لینا
پہ ہنس ہنس کے مرا حالِ پریشاں کون دیکھے گا
بہت نکلیں گے یوں تو رقصِ بسمل دیکھنے والے
دل ِمہجور تیرا دردِ پنہاں کون دیکھے گا
نظر والو سرِ راهِ تصور عام دعوت ہے
مریِ آنکھوں میں ہے تصویرِ جاں کون دیکھے گا
جو ہم اہلِ جنوں کی بھی چمن ہی پر نظر ہوگی
تو پھر حُسن رُخِ دشت و بیاباں کون دیکھے گا
غنیمت ہے شبِ غم نیند اُڑ جاتی ہے آنکھوں سے
سحر تک سیکڑوں خوابِ پریشاں کون دیکھے گا
بکھر جائیں گے جلوے تم نقابِ رُخ نہ سرکاؤ
نگاہِ شوق کی تنگیء داماں کون دیکھے گا
ٹھہر جا تو پسِ میخانہ واعظ، میں ابھی آیا
بس اک دوگھونٹ، اطمینان رکھ، یاں کون دیکھے گا ؟
گرفتِ پنجۂ شہباز تحسین ِنظر لے گی
ترے جذبوں کو اے صیدِ پَر افشاں کون دیکھے گا
ضرور آئی کہیں سے دل میں چنگاری محبت کی
لگا کر آگ خود گھر میں چراغاں کون دیکھے گا
کسی نے جیتے جی تجھ پر نہ جب راز اک نظر ڈالی
تو پھر مڑ کر سوئے گورِ غریباں کون دیکھے گا
راز عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment