Urdu Deccan

Saturday, January 8, 2022

اقبال سہیل

 یوم پیدائش 07 جنوری 1884


انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے

نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے


مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر

دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے


کچھ ما و شما میں فرق نہیں کچھ شاہ و گدا میں بھید نہیں

ہم بادہ کشوں کی محفل میں ہر جام بکف جم ہوتا ہے


دیوانوں کے جبہ و دامن کا اڑتا ہے فضا میں جو ٹکڑا

مستقبل ملت کے حق میں اقبال کا پرچم ہوتا ہے


منصور جو ہوتا اہل نظر تو دعویٔ باطل کیوں کرتا

اس کی تو زباں کھلتی ہی نہیں جو راز کا محرم ہوتا ہے


تا چند سہیلؔ افسردۂ غم کیا یاد نہیں تاریخ حرم

ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم پیدا وہیں زمزم ہوتا ہے


اقبال سہیل


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...