Urdu Deccan

Wednesday, February 24, 2021

نقش لائل پوری

 یوم پیدائش 24 فروری 1928


کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے

تو کرن ہے کے کلی ہے کے صبا ہے کیا ہے


تیری آنکھوں میں کئی رنگ جھلکتے دیکھے

سادگی ہے کہ جھجھک ہے کہ حیا ہے کیا ہے


روح کی پیاس بجھا دی ہے تری قربت نے

تو کوئی جھیل ہے جھرنا ہے گھٹا ہے کیا ہے


نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے

تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے


ہوش میں لا کے مرے ہوش اڑانے والے

یہ ترا ناز ہے شوخی ہے ادا ہے کیا ہے


دل خطا‌ وار نظر پارسا تصویر انا

وہ بشر ہے کہ فرشتہ ہے کہ خدا ہے کیا ہے


بن گئی نقش جو سرخی ترے افسانے کی

وہ شفق ہے کہ دھنک ہے کہ حنا ہے کیا ہے


نقش لائل پوری


محمود کیفی

 یوم پیدائش 23 فروری1986

" نعت "


آپؐ کا نام ہے ظُلمٙت کو مِٹانے والا

دِل میں چاہٙت کے چٙراغوں کو جٙلانے والا


آپؐ کیا آئے ، غریبوں کا مٙسِیحا آیا 

کون مُفلِس کو تھا سِینے سے لگانے والا ؟


زِندہ دٙرگور کِیا کرتے تھے دُنیا والے 

بیٹیوں کو تھا کہاں کوئی بچانے والا ؟


جان اٙپنی غٙمِ دٙورٙاں سے چُھڑا لیتا ہے 

آپؐ کے ذِکر کی مٙحفِل کو سٙجانے والا


آپؐ کے حُسن کا کرتا ہے نٙظارٙہ پٙیہٙم 

آپؐ سے رِشتٙہءِ اُلفٙت کو نِبھانے والا


آپؐ ہی کے یہ نٙواسے کی تھی جُراٙت ، وٙرنہ

کون مٙقتٙل میں تھا سٙر اٙپنا کٙٹانے والا ؟ 


پیارے آقاؐ پہ ہُوئی خٙتم نٙبوّٙت کٙیفی !

اٙب نٙبیؑ دُنیا میں کوئی نہیں آنے والا 


محمود کیفی


اطہر نفیس

 یوم پیدائش 22 فروری 1933


ہم بھی بدل گئے تری طرز ادا کے ساتھ ساتھ

رنگ حنا کے ساتھ ساتھ شوخئ پا کے ساتھ ساتھ


نکہت زلف لے اڑی مثل خیال چل پڑی

چلتا ہے کون دیکھیے آج حنا کے ساتھ ساتھ


اتنی جفا طرازیاں اتنی ستم شعاریاں

تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہل وفا کے ساتھ ساتھ


وحشت درد ہجر نے ہم کو جگا جگا دیا

نیند کبھی جو آ گئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ


ہوش اڑا اڑا دیئے راہ کے اضطراب نے

نکہت گل چلی تو تھی باد صبا کے ساتھ ساتھ


اطہر نفیس


سبیلہ انعام صدیقی

 یوم پیدائش 22 فروری


الجھ رہی ہوں ذہن میں اٹھے ہوئے خیال سے

سوال سے ، جواب سے ، ہر اک نئے خیال سے


کھرچ رہی ہوں رات دن نشان تیری یاد کے

میں لڑ رہی آج کل فقط ترے خیال سے


جواں ہوئی ہے فکر سے ہی روشنی حیات میں

جڑے ہیں پھر سے ذہن و دل کے سلسلے خیال سے


گلاب سارے کھل اٹھے ہیں رہ گذر میں خواب کے

حسیں ترین ہو گئے ہیں رابطے خیال سے


دلوں سے دل کے تال جب ملیں تو رکھنا پیار سے

عطا یہ رب کی خاص ہے سنبھال کے خیال سے


یہ شاخ دل ہری ہوئی کلی کلی مری کھلی

عجب سرور چھا گیا ، ہرے بھرے خیال سے


دل و نظر ملا کے جب چلیں گے ساتھ ساتھ ہم 

کٹے گی پھر تو زندگی ملے جلے خیال سے


امید کا چراغ پھر ہوا کی زد پہ آگیا

ہوئی ہے پہروں گفتگو کسی بجھے خیال سے


سبیلہ ! گام گام ہیں خوشی غمی کے فیصلے 

کیے ہیں دل نے صد ہزار مشورے خیال سے 


سبیلہ انعام صدیقی


Sunday, February 21, 2021

جاوید احمد خان جاوید

 مچاؤں شور زمانے کی یوں نظر میں رہوں 

وگرنہ سسکیاں بھرتے ہُوئے میں گھر میں رہوں 


کبھی خیال میں تیرے کبھی نظر میں رہوں 

کسی بھی شعر کی صورت ترے ہُنر میں رہوں 


لبوں پہ اُس کے ہمیشہ رہوں بنامِ غزل 

دُعائے خیر بنوں حرفِ معتبر میں رہوں


کبھی تو راہ دکھاؤں ستارہ بن کے تُجھے 

کبھی تری ہی قیادت میں میں سفر میں رہوں 


نئی صدی کی نئی نسل جانتی ہی نہیں 

صدائے حق میں رہوں تو سدا اثر میں رہوں 


یہ حوصلہ بھی شب و روز مُجھ کو اُس نے دیا 

فلک کو چُھونے پرندوں کے بال و پر میں رہوں 


گرفت حرف کی جاوید لازمی ہے سمجھ 

کسی کو زیر کروں کس کے میں  زبر میں رہوں



 جاوید احمد خان جاویدؔ

امیر مینائی نعت

 یوم پیدائش 21 فروری 1829


بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی

کہ فرد داخل دفتر ہوئی گناہوں کی


ترے فقیر دکھائیں جو مرتبہ اپنا

نظر سے اترے چڑھی بارگاہ شاہوں کی


ذرا بھی چشم کرم ہو تو لے اڑیں حوریں

سمجھ کے سرمہ سیاہی مرے گناہوں کی


خوشا نصیب جو تیری گلی میں دفن ہوئے

جناں میں روحیں ہیں ان مغفرت پناہوں کی


فرشتے کرتے ہیں دامان زلف حور سے صاف

جو گرد پڑتی ہے اس روضے پر نگاہوں کی


رکے گی آ کے شفاعت تری خریداری

کھلیں گی حشر میں جب گٹھڑیاں گناہوں کی


میں ناتواں ہوں پہنچوں گا آپ تک کیونکر

کہ بھیڑ ہوگی قیامت میں عذر خواہوں کی


نگاہ لطف ہے لازم کہ دور ہو یہ مرض

دبا رہی ہے سیاہی مجھے گناہوں کی


خدا کریم محمدﷺ شفیع روز جزا

امیر کیا ہے حقیقت میرے گناہوں کی


امیر مینائی


Saturday, February 20, 2021

راغب اختر

 یوم پیدائش 20 فروری 1981

کاتب تقدیر میرے حق میں کچھ تحریر ہو
رنج ہو یا شادمانی کچھ تو دامن گیر ہو

آب رود زیست کے کچھ گھونٹ زہریلے بھی ہوں
میں نے کب چاہا تھا ہر قطرہ مجھے اکسیر ہو

عہد آزادی سے بہتر قید زنداں ہو تو پھر
توڑ دینے کی قفس کو کیوں کوئی تدبیر ہو

تیز لہریں آ ہی جاتی ہیں مٹانے کے لیے


جب لب ساحل گھروندا ریت کا تعمیر ہو

غم رہے پنہاں در و دیوار دل کے درمیاں
کیا ضروری ہے کہ کرب زیست کی تشہیر ہو

راغب اختر

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urd#rekhtafoundation

قمبر عباس قمر

 یوم پیدائش 20 فروری 1989


اب  کہاں  تیرے   محلات   میں  جی   لگتا  ہے

مجھ  سے  مجنوں کا خرابات میں جی لگتا ہے


اس  ڈگر   پر  تو   قواٸد   ہی   بدل  جاتے  ہیں

عشق  میں  جیت  نہیں مات میں جی  لگتا ہے


حیف   بیزار   ہوٸے   اپنی  روایات    سے    ہم

اور   مغرب   کی  خرافات  میں  جی  لگتا   ہے 


ہاں  یہی  کھلتی جوانی  ہے اسی عمر میں  ہی

پیار   کرنے   کے  تجربات   میں  جی   لگتا  ہے 


یہ  بھی  اچھا  ہے  گناہوں  کی  سزا  دنیا  میں

یہ بھی   اچھا   ہے  مکافات  میں  جی لگتا  ہے 


رب  کی رحمت کی سند مجھ کو ملی ہے قمبر

صبح ِ  اول  کی  عبادات   میں   جی   لگتا  ہے


قمبر عباس قمر


Friday, February 19, 2021

کیف بھوپالی

 یوم پیدائش 20 فروری 1917


تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے

تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے


جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے

اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے


اللہ تیرے ساتھ ہے ملاح کو نہ دیکھ

یہ ٹوٹی پھوٹی ناؤ سمندر میں ڈال دے


آ تیرے مال و زر کو میں تقدیس بخش دوں

لا اپنا مال و زر مری ٹھوکر میں ڈال دے


بھاگ ایسے رہنما سے جو لگتا ہے خضر سا

جانے یہ کس جگہ تجھے چکر میں ڈال دے


اس سے ترے مکان کا منظر ہے بد نما

چنگاری میرے پھوس کے چھپر میں ڈال دے


میں نے پناہ دی تجھے بارش کی رات میں

تو جاتے جاتے آگ مرے گھر میں ڈال دے


اے کیفؔ جاگتے تجھے پچھلا پہر ہوا

اب لاش جیسے جسم کو بستر میں ڈال دے


کیف بھوپالی


نسیم سید

 میرے فن کار 

!!مجھے خوب تراشا تو نے 

آنکھ نیلم کی 

بدن چاندی کا 

یاقوت کے لب 

یہ ترے 

ذوق طلب کے بھی ہیں 

معیار عجب 

پاؤں میں میرے 

یہ پازیب 

سجا دی تو نے 

نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے 

یہ جواہر سے جڑی 

قیمتی مورت میری 

اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے 

میں نے مانا 

کہ حسیں ہے ترا شہکار 

مگر 

تیرے شہکار میں 

مجھ جیسی کوئی بات نہیں 

تجھ کو نیلم سی 

نظر آتی ہیں آنکھیں میری 

درد کے ان میں سمندر 

نہیں دیکھے تو نے 

تو نے 

جب کی 

لب و رخسار کی خطاطی کی 

جو ورق لکھے تھے 

دل پر 

نہیں دیکھے تو نے 

میرے فن کار 

ترے ذوق

ترے فن کا کمال

میرے پندار کی قیمت 

نہ چکا پائے گا 

تو نے بت یا تو تراشے 

یا تراشے ہیں خدا 

تو بھلا کیا مری تصویر 

بنا پائے گا 

تیرے اوراق سے 

یہ شکل مٹانی ہوگی 

اپنی تصویر 

مجھے آپ بنانی ہوگی 

ہوش بھی 

جرأت گفتار بھی 

بینائی بھی 

جرأت عشق بھی ہے 

ضبط کی رعنائی بھی 

جتنے جوہر ہیں نمو کے 

مری تعمیر میں ہیں 

دیکھ یہ رنگ 

جو تازہ مری تصویر میں ہیں 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...