Urdu Deccan

Friday, February 26, 2021

صفی ہمدانی

 یوم پیدائش 26 فروری 1974

نعت


رحمانﷻ کی رحمت کا منارہ ہے محمدﷺ

ہم خاک نشینوں کا سہارہ ہے محمدﷺ


یہ فخر بہت ہم کو محمدﷺ کے ہیں ہم لوگ

یہ ناز بڑا ہے کہ ہمارا ہے محمدﷺ


ہاشم کا مقدر تو زمانے سے فزوں ہے

ہاشم کے مقدر کا ستارہ ہے محمدﷺ


صد شکر خدا پاک کرم تیرا ہے مجھ کو

ماں ، باپ سے اولاد سے پیارا ہے محمدﷺ


ہم لوگ تلاطم میں گھرے لوگ ہیں سارے

دنیا یہ سمندر ہے کنارہ ہے محمدﷺ


اس ، اس کا خدا پاک مدد گار ہوا ہے

جس جس نے صفی دل سے پکاراہے محمدﷺ


صفی ہمدانی


عبد الرحیم نشتر

 یوم پیدائش 26 فروری 1947 


اگر ہو خوف زدہ طاقت بیاں کیسی

نوائے حق نہ سنائے تو پھر زیاں کیسی


اٹھاؤ حرف صداقت لہو کو گرم کرو

جو تیر پھینک نہیں سکتی وہ کماں کیسی


انہیں یہ فکر کہ میری صدا کو قید کریں

مجھے یہ رنج کہ اتنی خموشیاں کیسی


ہوا کے رخ پہ لیے بیٹھا ہوں چراغ اپنا

مرے خدا نے مجھے بخش دی اماں کیسی


ہوا چلے تو اسے کون روک سکتا ہے

اٹھا رکھی ہے یہ دیوار درمیاں کیسی


اگر یہ موسم گل ہے تو زرد رو کیوں ہے

دل و نظر پہ یہ کیفیت خزاں کیسی


نہ تار تار قبا ہے نہ داغ داغ بدن

مجاہدوں کے سروں سے گئی اذاں کیسی


عبد الرحیم نشتر


ذی شان

 یوم پیدائش 25 فروری


کنارِ آب رواں کھوئی کشتیوں سے اُدھر 

میں جی رہا ہوں سرابوں کی سرحدوں سے اُدھر 


بسی تھی اس کی نگاہوں میں ایسی خاموشی 

میں چونک چونک پڑا دل کی دھڑکنوں سے اُدھر 


یہ کس صدا کے تعاقب میں چل پڑے ہم لوگ 

افق سے دور کہیں نیلے پانیوں سے اُدھر 


تھے بند شہر کے خستہ مکاں زمانوں سے 

سو جھانکتے ہی نہیں لوگ کھڑکیوں سے اُدھر


ہے اک پری کے تصرف میں ان دنوں ذی شان

وہ جھیل دیکھتے ہو سبز ٹہنیوں سے اُدھر 


ذی شان


Thursday, February 25, 2021

وشمہ خان وشمہ

 


یوم پیدائش 25 فروری

ترے خیال میں  کچا  سہی  مکان مرا
مری زمین پہ رہتا ہے آسمان مرا

مری حیات پہ گزرے گا سانحہ بن کر
مرے رقیب کے پاؤں میں راز دان مرا

خیالِ خام میں زندہ تو رہ لوں میں  لیکن
گمانِ عشق میں  بٹتا نہیں گمان مرا

ہر ایک سمت ہی  بنتی رہی تری تصویر
ترے   خیال  میں  وشمہ  رہا ہے دھیان مرا

وشمہ خان وشمہ

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

Wednesday, February 24, 2021

دائم بٹ

 سنو پرکھوں کی عزت کو تماشا مت بنا دینا

محبت ھو بھی جائے تو کہیں دل میں چھپا دینا


ذرا اچھی نہیں لگتیں تری اشکوں بھری آنکھیں

بچھڑ کر یاد جو آئیں کبھی تو مسکرا دینا


فنا ھو جائے جل جل کر اندھیروں کی تمنا میں

ھوا کی راہ میں اتنے چراغوں کو جلا دینا


ابھی فرصت کہاں اتنی کہ کار-دوجہاں دیکھیں.

ابھی تو مشغلہ اپنا تجھے ھر پل صدا دینا


نقاہت سات جنموں کی مری سانسوں میں در آئے

مجھے میری ہی چاہت میں کچھ اس صورت تھکا دینا


مجھے ماں نے سکھایا ھے محبت بانٹتے جانا

مری فطرت نہیں دائم حقارت کو ھوا دینا

 

 دائم بٹ


سر فراز ابد

 یوم پیدائش 25 فروری 1952


آنکھوں میں اگر آپ کی صورت نہیں ہوتی

اس دل میں محبت کسی صورت نہیں ہوتی


جب تک پس پردہ وہ چھپے بیٹھے رہیں گے

کچھ بھی یہاں ہو جائے قیامت نہیں ہوتی


دیکھے جو تجھے لوگ تو سمجھے مرے اشعار

لفظوں سے تو شعروں کی وضاحت نہیں ہوتی


کیا اور کوئی کام کرے چھوڑیئے صاحب

بیکاری سے دنیا میں فراغت نہیں ہوتی


شہروں کے تصور سے بھی گھبرانے لگا دل

صحرا میں چلے جاؤ تو وحشت نہیں ہوتی


اس عمر میں بڑھ جاتے ہیں محنت کے تقاضے

جس عمر میں انسان سے محنت نہیں ہوتی


ہوتی تھی ہر ایک بات پہ حیرت مجھے پہلے

اب مجھ کو کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی


برباد ابدؔ ہم کو مروت نے کیا ہے

سب ہوتا جو آنکھوں میں مروت نہیں ہوتی


سرفراز ابد


اسعد بدایونی

 یوم پیدائش 25 فروری 1952


بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے

یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے


ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں

ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے


میں منظروں کے گھنے پن سے خوف کھاتا ہوں

فنا کو دست محبت یہاں بھی دھرنا ہے


تلاش رزق میں دریا کے پنچھیوں کی طرح

تمام عمر مجھے ڈوبنا ابھرنا ہے


اداسیوں کے خد و خال سے جو واقف ہو

اک ایسے شخص کو اکثر تلاش کرنا ہے


اسعد بدایونی


نقش لائل پوری

 یوم پیدائش 24 فروری 1928


کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے

تو کرن ہے کے کلی ہے کے صبا ہے کیا ہے


تیری آنکھوں میں کئی رنگ جھلکتے دیکھے

سادگی ہے کہ جھجھک ہے کہ حیا ہے کیا ہے


روح کی پیاس بجھا دی ہے تری قربت نے

تو کوئی جھیل ہے جھرنا ہے گھٹا ہے کیا ہے


نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے

تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے


ہوش میں لا کے مرے ہوش اڑانے والے

یہ ترا ناز ہے شوخی ہے ادا ہے کیا ہے


دل خطا‌ وار نظر پارسا تصویر انا

وہ بشر ہے کہ فرشتہ ہے کہ خدا ہے کیا ہے


بن گئی نقش جو سرخی ترے افسانے کی

وہ شفق ہے کہ دھنک ہے کہ حنا ہے کیا ہے


نقش لائل پوری


محمود کیفی

 یوم پیدائش 23 فروری1986

" نعت "


آپؐ کا نام ہے ظُلمٙت کو مِٹانے والا

دِل میں چاہٙت کے چٙراغوں کو جٙلانے والا


آپؐ کیا آئے ، غریبوں کا مٙسِیحا آیا 

کون مُفلِس کو تھا سِینے سے لگانے والا ؟


زِندہ دٙرگور کِیا کرتے تھے دُنیا والے 

بیٹیوں کو تھا کہاں کوئی بچانے والا ؟


جان اٙپنی غٙمِ دٙورٙاں سے چُھڑا لیتا ہے 

آپؐ کے ذِکر کی مٙحفِل کو سٙجانے والا


آپؐ کے حُسن کا کرتا ہے نٙظارٙہ پٙیہٙم 

آپؐ سے رِشتٙہءِ اُلفٙت کو نِبھانے والا


آپؐ ہی کے یہ نٙواسے کی تھی جُراٙت ، وٙرنہ

کون مٙقتٙل میں تھا سٙر اٙپنا کٙٹانے والا ؟ 


پیارے آقاؐ پہ ہُوئی خٙتم نٙبوّٙت کٙیفی !

اٙب نٙبیؑ دُنیا میں کوئی نہیں آنے والا 


محمود کیفی


اطہر نفیس

 یوم پیدائش 22 فروری 1933


ہم بھی بدل گئے تری طرز ادا کے ساتھ ساتھ

رنگ حنا کے ساتھ ساتھ شوخئ پا کے ساتھ ساتھ


نکہت زلف لے اڑی مثل خیال چل پڑی

چلتا ہے کون دیکھیے آج حنا کے ساتھ ساتھ


اتنی جفا طرازیاں اتنی ستم شعاریاں

تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہل وفا کے ساتھ ساتھ


وحشت درد ہجر نے ہم کو جگا جگا دیا

نیند کبھی جو آ گئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ


ہوش اڑا اڑا دیئے راہ کے اضطراب نے

نکہت گل چلی تو تھی باد صبا کے ساتھ ساتھ


اطہر نفیس


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...