1) غزل
کہیں بھی انقلاب آئے یہی تصویر بولے گی
کبھی تحریر بولے گی کبھی شمشیر بولے گی
فقط خوابوں میں کھونے سے کہیں تقدیر بولے گی
عمل شامل اگر ہو تو ہر اک تدبیر بولے گی
وہاں پر مصحفِ احساس کی تحریر بولے گی
حدیثِ زندگی کی جِس جگہ تفسیر بولے گی
ہر اک منبر سے جب اسلام کی تاثیر بولے گی
مُقّرر خود نہ بولے گا مگر تقریر بولے گی
جہاں سے امن کے موسم میں ہوگی خون کی بارش
سمجھ لینا وہیں سے جنگِ عالمگیر بولے گی
خبر کیا تھی کہ جس کی پیاس پر کوثر نچھاور ہے
اُسی معصوم کی گردن پہ نوكِ تیر بولے گی
کِسے تیرا خیال آئے گا تنہائی کے عالم میں
اگر آئینہ خانے میں کوئی تصویر بولے گی
دہل اٹھّیں گی دیواریں تمہارے قید خانوں کی
چٹخ کر جب ہمارے پاؤں کی زنجیر بولے گی
کوئی تو خضر بن کر راستے میں آ ہی جائے گا
سِکندر کی زباں جب عالمی تسخیر بولے گی
جِسے ہم جاگتی آنکھوں میں رکھ کر بھول آئے ہیں
کہاں تک اُس ادھورے خواب کی تعبیر بولے گی
محاذِ زندگی پر فتح یابی ہی مُقدر ہے
زبانِ صدق ے تحریک جب تکبیر بولے گی
مرے احباب بھی مجھ کو بھلا دیں گے مجاز اُس دن
کھنڈر کا روپ لے کر جب مری جاگیر بولے گی
نیاز احمد مجاز انصاری
2) غزل
ہر ایک زاویہ سے سمٹ کر بتائے گا
کیا لذتِ نظر ہے یہ منظر بتائے گا
نیزه بتائے گا نہ تو خنجر بتائے گا
دریا کہاں ہے پیاس کا دفتر بتائے گا
اب تک مِلا ہے جو بھی مقدر کی بات تھی
اب جو مِلے گا وہ بھی مقدر بتائے گا
یہ بھی ہے کوئی گھر کہ ہوا بھی نہیں نصیب
کہتے ہیں گھر کِسے کوئی بے گھر بتائے گا
سورج کو آ تو جانے دو اپنے سروں کے بیچ
سایہ ہے کِس کا کِس کے برابر بتائے گا
ظل الٰہی دھوپ سے کیسے بچیں گے اب
صحرا کی تپتی ریت پہ لشکر بتائے گا
سوئی ہوئی کتاب کے اوراق جاگ اٹھے
یہ بات اب تو وقت ہی پڑھ کر بتائے گا
بھوکا سہی کسان کی عزت کا ہے سوال
اپنی زمیں کو کیسے وہ بنجر بتائے گا
بجھتی ہے کیسے پیاس بزرگوں کے نام پر
بچہ ہمارا زہر کو پی کر بتائے گا
اپنے لہو کے بہنے کا اِلزام کِس کو دوں
کِس نے کیا ہے قتل مرا سر بتائے گا
کتنے بدن کا خون زمیں پی چکی مجاز
پورس بتائے گا کہ سکندر بتائے گا
نیاز احمد مجاز انصاری
3) غزل
لمحے بدل گئے نہ زمانے بدل گئے
کیسے یہ زندگی کے فسانے بدل گئے
یہ تو نہیں کہ کھیتوں کے دانے بدل گئے
پھر کیوں یہ پنچھیوں کے ٹھکانے بدل گئے
بدلے ہوئے سُروں کا یہ الزام کس کو دیں
نغمے نئے ہیں ساز پرانے بدل گئے
انداز بے وفائی جو کل تھا وہ اب بھی ہے
ہے فرق صرف یہ کہ بہانے بدل گئے
تحققِ جرم خود ہے اِسی کی تلاش میں
منصف بدل گئے ہیں کہ تھانے بدل گئے
کالی اندھیری رات میں کوؤں کے شور سے
پختہ شکاریوں کے نِشانے بدل گئے
تتلی ہو گل ہو بادِ صبا ہو کہ ہو بہار
کردار سب وہی ہیں فسانے بدل گئے
ٹی وی نے اس صدی کو وہ تہذیب دی ہے آج
لفظ و بیاں کے ڈھنگ سہانے بدل گئے
ضد میں ہر اک لباس کا موسم بدل گیا
بچے بدل گئے نہ سیانے بدل گئے
صدیوں کی نیند تھی کہ کوئی خواب تھا نیا
جاگے تو سارے سپنے سہانے بدل گئے
دھاگا وہی ہے دھاگے کی بندش وہی مجاز
حیرت ہے کس طرح سے یہ دانے بدل گئے
نیاز احمد مجاز انصاری
4) غزل
ہے رازِ ہستی کہ میرے دل میں یہ نور کیوں ہے یہ رنگ کیوں ہے
زمانہ میری انا شناسی وفا پرستی پہ دنگ کیوں ہے
نظر میں تھی جس نظر کی وُسعت وہی نظر اتنی تنگ کیوں ہے
شعور والوں کے ذہن و دل پر یہ تنگ نظری کا زنگ کیوں ہے
زبانِ فطرت کی ہر صدا پر سوال کرتے ہیں ساز و نغمے
اذانِ حق پر ہے ناز اس کو تو ہاتھ میں پھر یہ چنگ کیوں ہے
نظر سے بوسے لُٹا رہا ہوں بنا کے شیشے کوسنگِ اسود
سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں مری نظر میں امنگ کیوں ہے
ازل سے لے کر ابد کی حد تک بنائے عالم ہے جِس کی ہستی
اُسی کے سینے کی سرحدوں پر انا پرستی کی جنگ کیوں ہے
سجا رہا تھا جو چاند تاروں سے اپنی قسمت کے آئینے کو
یہ کیا ہوا کہ زمیں پہ آ کر وہ آج بے نام و ننگ کیوں ہے
وہ بے وفا کہہ رہے ہیں لیکن دلیل ہے یہ مری وفا کی
جو میں نے ہاتھوں سے ڈور چھوڑی تو آسماں پر پتنگ کیوں ہے
جو بے تعلق ہیں اپنے فن سے انہیں بھی فنکار مان لیجئے
سوال یہ ہے جواب والوں کی چاه اتنی دبنگ کیوں ہے
مجاز یہ ہے نظامِ گلشن کہ باغباں کی یہ سازشیں ہیں
ہمیں سے رنگِ چمن ہے قائم ہمیں پہ بارانِ سنگ کیوں ہے
نیاز احمد مجاز انصاری
5) غزل
گناه کیسا عذاب و ثواب کون لکھے
ہوا کے ماتھے پہ تقریر آب کون لکھے
حقیقوں کے سمندر کو خواب کون لکھے
سفید خون سے اب انقلاب کون لکھے
میں قرض بن کے ترے ساتھ جی تو لوں لیکن
سوال یہ ہے کہ اس کا حساب کون لکھے
وہاں بھی بسنے گئے ہیں زمیں کے شہزادے
تمہارے شہر کو اب ماہتاب کون لکھے
کبھی تو کان کے پردے سے یہ سوال بھی ہو
نظر کے پردے سے آخر حجاب کون لکھے
تڑپ ہی جس کا مقدر ہو اس کے سینے پر
ندی کی لہروں سے پھر اضطراب کون لکھے
جسے خود اپنے ہی سائے پہ اعتبار نہیں
تمہی کہو اُسے عزت مآب کون لکھے
زبان والوں کے قصے زباں زباں پر ہیں
قلم کی نوک سے زخمی کتاب کون لکھے
سکوت دشت میں سرگوشیاں ہیں چاروں طرف
کہ منبروں کے لئے اب خطاب کون لکھے
رگوں میں چس کی ہے مایوسیوں کا سرد لہو
وہ بوڑھا جسم ہے اس کو شباب کون لکھے
مجاز زخموں کی تعداد بے حساب سہی
جو زخم دیتے ہیں ان کا حساب کون لکھے
نیاز احمد مجاز انصاری
6) غزل
زبانیں ہیں مگر چرچے نہیں ہیں
جہاں میں کیا مرے قصّے نہیں ہیں
ہماری داستاں ہی عام کر دو
اگر تاریخ کے پنّے نہیں ہیں
کھڑے ہیں شبنمی اخلاق لے کر
کبھی شعلوں سے ہم جلتے نہیں ہیں
میں اپنے گھر کو ہی نیلام کر دوں
ابھی حالات تو ایسے نہیں ہیں
دلوں میں چاہتیں اب بھی ہیں باقی
مگر اب دلنشیں چہرے نہیں ہیں
میں سرحد پر کھڑا ہوں اب بھی تنها
مرے سینے په کیوں تمغے نہیں ہیں
دعائیں دے کے مجھ کو مار ڈالیں
مرے احباب تو ایسے نہیں ہیں
کوئی کیسے بنائے آشیانہ
کہ جنگل میں بھی اب تنِکے نہیں ہیں
لڑکپن میں جوانی کی ضدیں کیوں
میاں یہ چونچلے اچھے نہیں ہیں
جو مغرب سے ملیں تیزاب بن کر
مرے مشرق میں وہ تحفے نہیں ہیں
کوئ پتّہ ابھی ہو زرد کیسے
مرے آنسو ابھی سُوکھے نہیں ہیں
مجاز آب تو علمبردار ہو جا
کہ اب دریاؤں پر پہرے نہیں ہیں
نیاز احمد مجاز انصاری
7) غزل
صحرا صحرا ساگر ساگر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
کون چُھپا ہے کِس کے اندر میں بھی ڈھونڈ وں تو بھی ڈھونڈ
چور سپاہی ایک برابر میں بھی ڈھونڈوں تو بھی ڈھونڈ
کس کے پاس ہے خونی خنجر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
امن و امان کا جِسے فرشتہ کہتے ہیں سب دنیا والے
سرحد سرحد وہی کبوتر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
آڑی تِرچھی ریکھاؤں میں جس پر سب کے بھاگ لکھے ہیں
بازاروں میں ایسے پتھر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
کب تک آنگن میں ڈھونڈے گا اپنے قد کی پرچھائیں کو
چل اس حد سے پار نکل کر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
فرعون و بو جہل کی سنت گھر گھر پھر سے عام ہوئی ہے
پھر کوئی اوتار و پیمبر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
ڈھونڈنے والے ڈھونڈ رہے ہیں سچائی کے پیمانے کو
آ اب اپنے من کے اندر میں بھی ڈھونڈھوں تُو بھی ڈھونڈ
ناگوں کو جو بس میں کر لے زہر کو پی کر امرت کر دے
آج کے یُگ میں ایسا شنکر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
کوئی چور تو آیا ہوگا جس نے کی تہذیب کی چوری
کیسے ٹوٹا گھر کا چھّپر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
چاند پہ جانے والوں سے کیا آس لگائے بیٹھے کوئی
اس دھرتی پر چھوٹا سا گھر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
کون مجاز اس بات کو روئے کیسی ہے کس پھول کی خوشبو
آنکھوں آنکھوں سبکو چھو کر میں بھی ڈھونڈوں تُو بھی ڈھونڈ
نیاز احمد مجاز انصاری
8) غزل
ہے سیاست تو شب و روز تماشہ ہوگا
امن کے نام پر بارود کا سودا ہوگا
سب نے کل رات یہی خواب میں دیکھا ہوگا
مرغ بولے گا ابھی اور سویرا ہوگا
جانے کس طرح سے رات اُس نے گزاری ہوگی
ماں نے جب بچے کو بھوکا ہی سلایا ہوگا
آج کے دور کی تہذیب کے معنی کیا ہیں
دیکھنے والوں نے ٹی وی پہ تو دیکھا ہوگا
میں نہ کہتا تھا کہ چوسر کی ہر اک بازی پر
وقت پنچالی کے انچل سے ہی لپٹا ہوگا
فرقہ بندی کی یہ تعویز نہ کام آئے گی
شہر پر جب کسی آسیب کا سایہ ہوگا
آم کا پیڑ سہی اتنا نہ دو خُون اے
ورنہ پھل اس کا کریلے سے کسیلا ہوگا
فلسفہ ہوگی اگر بھوک ترے مکتب میں
پیاس کے نام سے پانی بھی معمہ ہوگا
کھل گئی ہو گی مجاز اس پر حقیقت ساری
اس نے جب خود کو مری آنکھ سے دیکھا ہوگا
نیاز احمد مجاز انصاری
9) غزل
حاکم وقت کی قانون سے مکّاری کیوں
شہر میں امن اگر ہے تو گرفتاری کیوں
مصلحت کہہ کے قبیلے پہ ستم گاری کیوں
سرہی جب تن پہ نہیں ہے تو یہ سرداری کیوں
سرحدیں اپنی ہیں دیس اپنا ہے کھیتی اپنی
پھر بھی ہم کرتے ہیں صُوبوں کی خریداری کیوں
آگ ہی تم کو لگانی ہے اگر گلشن میں
اے نئی نسل کے لوگو ! یہ شجر کاری کیوں
زندگی دی ہے جِسے خون بہا کر اپنا
میرے اُس گھر میں مرے نام سے بیزاری کیوں
آپ سمجھے ہی نہیں چارہ گری کا معیار
مانگنے والا بھلا مانگے گا لاچاری کیوں
رنگ اور نسل ہی مذہب ہے اگر دیوانو !
پھر گلے مِلنے کی سڑکوں په اداکاری کیوں
جِس کو احساس کا معمار کہا جاتا ہے
کر گیا وہ مری تہذیب کو بازاری کیوں
اے مجاز اپنی ہنر مندی کا سودا کیسا
لفظ در لفظ کتابوں میں فُسوں کاری کیوں
نیاز احمد مجاز انصاری
10) غزل
خواب کو اُس نے اک خطاب لکھا
اور تعبیر کو نِصاب لکھا
پھر سے زہنوں پہ ایک خواب لکھا
کس نے اعلانِ انتخاب لکھا
روشنائی سے جل گیا کاغذ
میں نے جب اُس کو آفتاب لکھا
جس کی تحریر میں حرارت تھی
اُس کو پڑھ کر اُسے کتاب لکھا
اُس نے پھر دے دیا قلم مجھ کو
جب لِکھا میں نے بے حساب لکھا
رات بھر ماہتاب کو شبنم
دن میں ذرّے کو آفتاب لکھا
اف یہ احساس کمتری کیسی
اس نے دشمن کو آنجناب لکھا
وہ تو معصوم ایک بچپن تھا
بوالہوس نے جسے شباب لکھا
ہے تعجب کہ ایک مفکر نے
کاغذی پھول کو گلاب لکھا
اِس نمائش کے دور میں کس نے
خون سے اپنے انقلاب لکھا
ہوش لکھ کر مٹا دیا سب نے
اور پھر اس جگہ شراب لکھا
ایسے مفتی کو کون فتوی دے
جس نے رحمت کو بھی عذاب لکھا
اے مجاز اس میں کیسی سازش ہے
پیاس نے آب کو سراب لکھا
نیاز احمد مجاز انصاری
11) غزل
پہن کر وہ اسے خود کو بہت چالاک کہتا ہے
بدن پر چار چھ دھاگے کو جو پوشاک کہتا ہے
زمّرد کو وہ جب اپنی زبان سے خاک کہتا ہے
اُسے دربار کا ہر فرد بے ادراک کہتا ہے
بہت کُھلتی ہے جانے کیوں اُسے زندہ دِلی میری
مرے ہنستے ہوئے چہرے کو جو غمناک کہتا ہے
یہ اپنا ظرف ہے گنگا کا پانی کِس کو بھا جائے
کِسی کو پاک لگتا ہے کوئی ناپاک کہتا ہے
میں جب کہتا ہوں ، کہتا ہوں خدا لگتی زمانے میں
زمانہ آج بھی مجھ کو بہت بیباک کہتا ہے
خدا جانے مری نظروں میں کیا اُس کو نظر آیا
کبھی تو میری جانب بھی نظر سے تاک کہتا ہے
وہی رکھتا ہے اپنی گدڑیوں میں قیمتی پتھر
جو مسجودِ ملائک خود کو مُشتِ خاک کہتا ہے
ہر اک بازی بِساطِ دہر کی میں جیت لیتا ہوں
مرا دشمن بھی مجھ کو صاحب اِدراک کہتا ہے
زمیں پر اُس کو سننے کے لئے کوئی نہیں ملتا
غزل وہ اس لئے شاید پئے افلاک کہتا ہے
جہالت کفر کا اندھا کنواں ہے ڈوب جاؤ گے
یہ اک روشن حقیقت ہے قرآنِ پاک کہتا ہے
جسے دو گز زمیں کی بھیک لینی ہے وہی دیکھو
بھکاری ہو کے خود کو مالکِ املاک کہتا ہے
جہاں بھی وجہِ تخلیقِ جہاں پوچھی گئی مجھ سے
مرا دل اس کو شرح آیتِ لولاک کہتا ہے
مجاز اشعار کہتا ہوں میں اپنے زخم دھو دھو کر
تبھی تو شہر مجھ کو شاعر بے باک کہتا ہے
نیاز احمد مجاز انصاری
12) غزل
کچھ نہ آئے جب سمجھ میں آؤ پھر ایسا کریں
بھوک جِن کو کھا چُکی ہے ان پہ کچھ چرچا کریں
کیوں نئی تہذیب کی میّت پر ہم رویا کریں
تنگ ہوتے دائروں میں وسعتیں پیدا کریں
ہر سیاست کی پہیلی بُوجھ لیں گے خود بخود
آپ بھی سُوکھے سمندر میں اگر ڈوبا کریں
ہم نے پھر تاریخ کو عنوان پُختہ دے دیا
لِکھنے والے شوق سے اب داستاں لکھا کریں
پَستہ قد بنیاد کیسی زخم کے احساس پر
آپ اپنے قد سے بھی اُونچا کبھی سوچا کریں
مانگ لے گا ایک دِن پانی کبھی اُن سے حساب
بادلوں سے کہہ دو موسم دیکھ کر برسا کریں
یوں تو سب ہی کہہ رہے ہیں آدمی خود کو مگر
اپنے اندر آدمیّت بھی ذرا پیدا کریں
دوسروں کی صورت و سیرت پر ہے جن کی نظر
ان سے کہہ دو گاہے گاہے آئینہ دیکھا کریں
یہ سماجوں کے مسیحا تجربے کی گوند سے
ہو سکے تو ٹوٹے رشتوں کو بھی جوڑا کریں
ہم براہیمیؑ ہیں سر دیتے نہ کیوں اسلام پر
کہہ دو خوابوں سے کہ اِس تعبیر کو سجدہ کریں
میں کِھلونا بھی ہوں اور بارود بھی ہوں میں مجاز
کھیلنے والے سنبھل کر مجھ سے اب کھیلا کریں
نیاز احمد مجاز انصاری
13) غزل
گلے لگاتے ہیں ہم ہنس ہنس کے ہم سزاؤں کو
خوشی کی فکر کہاں ہے غم آشناؤں کو
جو سن سکے نہ کبھی اپنی ہی صداؤں کو
بلا رہا ہے فلک سے وہ دیوتاؤں کو
جو ہو سکے تو تجوری میں بند کر لو انہیں
چرا نہ لے کوئی ان صبح کی ہواؤں کو
یہ ایسا شہر ہے پتھر ہیں جس کے باشندے
یہاں پہ کون سنے گا تری صداؤں کو
ستم کی آگ کو اچھے برے سے کیا مطلب
ستم کی آگ نے چھوڑا نہ حق نماؤں کو
اِجابتوں کے وظیفے بھی کام آ نہ سکے
نہ جانے کس کی نظر لگ گئی دعاؤں کو
کوئی بھی شہر میں کرتا نہیں سلام اُسے
سلام کہہ کے وہ آیا ہے جب سے گاؤں کو
جہاں سے ہجرتیں شہرِ اماں بناتی ہیں
یہ کس نے آگ لگا دی ہے اُن گپھاؤں کو
ہوائیں لگ گئیں شاید اِنہیں سیاست کی
کہ آنچ مل گئی بارود سے ہواؤں کو
ہوں آفتاب تو پھلیے گی روشنی میری
کرو کے قید کہاں تک مری شعاؤں کو
چلا رہا ہے جو صحرا کی ریت پر کشتی
مجاز اس پہ نچھاور کرو دعاؤں کو
نیاز احمد مجاز انصاری
14) غزل
مری شہرت کا یہ انجام لکھ دو
ہر اک رسوائی میرے نام لکھ دو
غزل لکھنے سے پہلے دام لکھ دو
تخلص۔ ہو گیا نیلام لکھ دو
مرے ہی نام ہر الزام لکھ دو
مجھے اک قصہ بدنام لکھ دو
مرے پورے بدن کا ناپ لے کر
ورق پر تم ادھورا نام لکھ دو
کھڑے ہیں دھوپ میں ظل الہی
چلو سورج پہ چل کے شام لکھ دو
ادیب مصلحت ہے نام أس کا
کتابوں میں اسے بے نام لکھ دو
تمہیں کو میں یہ حق بھی سونپتا ہوں
مری ہر کوششیں ناکام لکھ دو
زمانے کی روش بدلی ہوئی ہے
ہر اک ماتھے پہ یہ پیغام لکھ دو
سمجھ میں جب نہ آئے روپ اس کا
کبھی سادھو کبھی بہرام لکھ دو
جو چھپ کر بھی اجالے دے رہا ہے
اسی کے نام ہر انعام لکھ دو
چمن سازی کے گر ہم جانتے ہیں
چمن سارا ہمارے نام لکھ دو
نہ تھک جائیں کہیں یہ چلتے چلتے
ہواؤں کے لئے آرام لکھ وو
مجاز احساس کی گمراہیوں کا
جو ہوتا ہے وہی انجام لکھ دو
نیاز احمد مجاز انصاری
15) غزل
حسرتوں کا ہے اک مکاں بابا
اور خوابوں کا سائیباں بابا
جل رہا ہے جو گلستاں بابا
ہر نظر ہے دھواں دھواں بابا
صرف تیری تلاش میں اب تک
خود کو ڈھونڈا کہاں کہاں بابا
تھی وہ نفرت کی ایک چنگاری
جل گئیں کتنی بستیاں بابا
کون کس کو گناہ گار کہے
سب نے سيکیں ہیں روٹیاں بابا
جل اٹھیں گے یہ کاغذی نعرے
توپ کھولے گی جب زباں بابا
ہر طرف بھیڑ ہے فرشتوں کی
یہ زمیں ہے کہ آسمان بابا
اس کا بابا ہے مفلسی کا مریض
اور بیٹی بھی ہے جواں بابا
اس کو تاریخ بھی پڑھا دینا
لِکھ رہا ہے جو داستان بابا
مصلحت کے سمندروں میں ہیں
خود پرستوں کی کشتیاں بابا
جن پہ انصاف کی وکالت تھی
بک گئیں وہ گواہیاں بابا
مسجدیں پھر بھی رہ گئیں سُونی
گونجتی رہ گئی اذان بابا
کس کی قیمت مجاز کتنی ہے
کھول کر دیکھ لے دکاں بابا
نیاز احمد مجاز انصاری
16) غزل
قلم سے ہم نے غدّاری نہیں کی
کبھی جھوٹی قلم کاری نہیں کی
غلط ہم نے رواداری نہیں کی
شرافت کی اداکاری نہیں کی
اُسے اوروں سے کیا نسبت کہ جس نے
خود اپنے سے وفا داری نہیں کی
ہر اک بازی ہمارے ہاتھ میں تھی
ہمیں نے آپ ہشیاری نہیں کی
گلے مِل کر گلا کاٹا گیا ہے ہے
مگر دعویٰ ہے مکّاری نہیں کی
قبیلے کے لئے جنگیں لڑی ہیں
کبھی بے سر کی سرداری نہیں کی
ضمانت پر قلم کی نوک رکھ کر
سوالوں کی گرفتاری نہیں کی
مری ہر شے پہ اُس کا حق تھا لیکن
خود اُس نے ہی سمجھ داری نہیں کی
بہت سستا تھا بازارِ تعلق
مگر قصداً خریداری نہیں کی
کٹایا سر کو سجدے میں جُھکا کر
عبادت ہم نے بازاری نہیں کی
پلایا ہے لہو بھی سرحدوں کو
فقط رسماً نگہ داری نہیں کی
سفیدی میں سیاہی کو چُھپا کر
طبیعت اپنی در باری نہیں کی
سپاہی فرض کو پہچانتا تھا
مجاز اُس نے جو سالاری نہیں کی
نیاز احمد مجاز انصاری
17) غزل
آگ کے اندر پھول کِھلانے والا کون
دریا کو تابوت بنانے والا کون
محلوں کی بنیاد ہلانے والا کون
اور قلم کے تیر چلانے والا کون
سورج کو مجھ سے تو کوئی بیر نہیں
میری چھت سے دھوپ چرانے والا کون
کِس نے دے دی سانس نئی آشاؤں کو
امید وں کے دیپ جلانے والا کون
رنگ ترا بے رنگ نہیں ہونے دیتا
لفظوں سے تصویر بنانے والا کون
کِس نے توڑا بحر و بر کے رشتوں کو
ساحل پر دیوار بنانے والا کون
اپنے خون سے سُوکھے سُوکھے پتوں پر
انجانی سی چھاپ لگانے والا کون
جگمگ کرتے تارے ہم سے کہتے ہیں
پلکوں کو آکاش بنانے والا کون
کون مجاز احساس کی سانکل کھول گیا
دل کے رستے ذہن پہ چھانے والا کون
نیاز احمد مجاز انصاری
18) غزل
شور کیسا ہے یہ ہواوں میں
چُھپ گئے سنت سب گپھاؤں میں
کیا اثر خاک ہو دعاؤں میں ہے
ہے مِلاوٹ اگر دواؤں میں
شہر سائے کی بھیک لینے کو
پھر سے آیا ہے میرے گاؤں میں
سب کو دُشمن مرا نہ کہہ دینا
اجنبی بھی ہیں آشناؤں میں
اُس کے داؤں پہ آج میں ہوں مگر
آئے گا کل وہ میرے داؤں میں
ہوش تقلید میں تو زندہ ہے
جوش کتنا ہے رہنماؤں میں
سر مرا رکھ دیا جو نیزے پر
ڈال دو بیڑیاں بھی پاؤں میں
برگدی دیوتائوں کو آخر
کِس نے الجھا دیا جٹاؤں میں
آدمیّت کے زہر سے ڈر کر
چُھپ گئے سانپ سب گپھاؤں میں
ہچکیاں مجھ سے پوچھتی ہیں مری
یاد کِس نے کیا دعاؤں میں
اجنبی ہے مجاز جِن کے لئے
تھے کبھی وہ بھی آشناؤں میں
نیاز احمد مجاز انصاری
19) غزل
موت کی تصویر بھی ہے زیست کے امکان میں
آگیا سامان یہ کِس کا مرے سامان میں
اک درندہ کہہ گیا چُپکے سے میرے کان میں
کاش کچھ انسانیت باقی ر ہے انسان میں
کھو گئی ساری کہانی وقت کے میزان میں
میں اُلجھ کر رہ گیا جب سے ترے عنوان میں
تُو تو میرا دوست تھا مجھ سے دغا کیوں کر گیا
آگئی اتنی کمی کیسے ترے ایمان میں
اب جلا وطنی کا اس پر حکم صادر ہو گیا
زندگی گزری ہے جس کی ساری ہندوستان میں
رکھ سکے جو میز بان کی میزبانی کا بھرم
پہلے جیسا اب تكّلف ہی کہاں مہمان میں
ہر نوازش اس کی مجھ سے قیمتیں لیتی رہی
مصلحت کا عکس بھی تھا اُس کے ہر احسان میں
میرا تحفہ دیکھ کر بچّہ مرا کہنے لگا
کون کھیلے کا کِھلونا جنگ کے میدان میں
اے مجاز اِس شہر کے ذہنوں کو آخر کیا ہوا
کس نے شعلے بھر دئے ہیں شبنمی ارمان میں
نیاز احمد مجاز انصاری
20) غزل
غبارِ راہ کو یوں کامران ہونا ہے
زمیں سے اڑ کے اسے آسان ہونا ہے
صدی صدی کے لئے اک نشان ہونا ہے
مرے قلم کو بھی شاه جہان ہونا ہے
گواہ بن کے نہ آتا میں اس عدالت میں
کسے خبر تھی یہاں بے زبان ہونا ہے
اناج اُگا کے بھی فاقے سے اس کا مر جانا
عجیب جُرم یہاں پر کسان ہونا ہے
خزاں کی دھوپ میں کی جائے پرورش اس کی
مرے چمن کا جسے پاسبان ہونا ہے
یہاں بھی خون کے رشتے ہی کام آئینگے
اگر قبیلوں کو اک خاندان ہونا ہے
کِسی کی بیٹی کو دے کر طاق یاد رہے
کہ تیری بیٹی کو اک دن جوان ہونا
یہ جان کر بھی میں اُس پر گُمان کرتا تھا
مری طرف سے اُسے بد گُمان ہوتا ہے
ترے جیالے ہی خود ہو گئے ترے دشمن
نہ جانے کیا ترا اردو زبان ہونا ہے
مجاز کیسے میں کہہ دوں کہ کامیاب ہوں میں
ابھی تو اور یہاں امتحان ہونا ہے
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 21
امتحان کا ایک یہ بھی مرحلہ اچھا لگا
سر پر سایہ چلچلاتی دھوپ کا اچھا لگا
اک وہ لمحہ تھا جو برسوں سے جدا اچھا لگا
جب پڑوسی کو پڑوسی کا گلہ اچھا لگا
دی مری آواز نے خاموشیوں کو زندگی
شب کے سناٹوں کو میرا چیخنا اچھا لگا
صبر کی آنکھوں سے پڑھتا کون پانی کی کتاب
مجھ کو میری تشنگی کا قاعدہ اچھا لگا
بیچتا کیسے نہ آخر وه ضمیر اپنا یہاں
اس تجارت میں بھی اس کو فائده اچھا لگا
بھائی سے بھائی کو چوراہے پر لڑتا دیکھ کر
جانے کیوں احباب کو یہ حادثہ اچھا لگا
آج بھی تاریخ شاہد ہے ہمارے قول کی
سر سے پہلے کربلا کا راستہ اچھا لگا
مفلسی کی تابناکی چاہے مدھم ہی سہی
جھونپڑی میں ٹمٹماتا اک دیا اچھا لگا
دیکھ کر محلوں کے سورج کی وه کالی روشنی
جھونپڑی میں ٹمٹماتا اک دیا اچھا لگا
ایک ہی لمحہ میں اپنی مانگ پوری ہوگئی
ہاتھ اٹھا کر اس کو میرا مانگنا اچھا لگا
کچھ نہ لکھ کر بھی بہت کچھ جس میں لکھا ہے مجاز
زندگی کا وہ سنہرا حاشیہ اچھا لگا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل22
طاقت کے تکبر سے ہے شرسار بہت خوب
ہے بم کے نشانے پر وہ بمبار بہت خوب
ہے گرم اگر جنگ کا بازار بہت خوب
کیا دام چکائیں گے خریدار بہت خوب
راس ان کو نہیں آتے کبھی دن کے اجالے
وہ جن کے ہوا کرتے میں کردار بہت خوب
چلتے ہیں مرے سائے کا لیکر جو سہارا
سنتے ہیں وہی مجھ سے ہیں بیزار بہت خوب
حیرت ہے مجھے قتل سے یہ کس نے بچایا
ہیں اب بھی مرے اپنے طرفدار بہت خوب
شورج کی شعاؤں سے بدن جلنے لگے ہیں
ہے ظل الہی کا یہ دربار بہت خوب
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جنت ہے ہماری
اور ہم ہی کہے جائیں گنہگار بہت خوب
کھو جائے نہ اخبار کے پڑھنے کی روایت
ٹی وی پہ سنے جاتے ہیں اخبار بہت خوب
اک عمر جوانی کی ہوا کرتی ہے لیکن
لگتے ہیں ترے آج بھی رخسار بہت خوب
لکھی مجاز آپ نے پوجا کی جو تحریر
آنے لگے پڑھنے جسے اوتار بہت خوب
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 23
پریوں کا حسن بن کے فسانوں تک آگیا
اک راز تھا جوسب کی زبانوں تک آگیا
الفاظ کا بہاو بیانوں تک آگیا
اُس کا کہا خود اُس کے ہی کانوں تک آگیا
لازم ہے مجھ کو اس کے بھی جذبوں کا احترام
بچہ مرا جو اب مرے شانوں تک آگیا
جنگل کی إن ہواؤں کو الزام کون دے
شعلوں کا جو ہجوم مکانوں تک آگیا
آواز کیا بلند ہوئی حق پرست کی
ہر تیر باطلوں کا کمانوں تک آگیا
یہ بھی تو بندگی کی بلندی میں بے شمار
ہر ایک سجدہ بڑھ کے اذانوں تک آگیا
وہ بھی تو اپنے جھوٹ کے پنجرے میں قید ہے
سچ کا مزاج داں جو بہانوں تک آگیا
اس کو نۓ زمانے کی تہذیب ہی کہو
گھر کا ہر ایک معاملہ تھانوں تک آگیا
تیروں کے زخم کھا کے تعجب کی بات ہے
اک اک پرندہ اپنے ٹھکانوں تک آگیا
بارود کی ہواؤں نے موسم جلا دئے
لیکن عذاب سارا کسانوں تک آگیا
مجھ کو مٹانا خواب تھا ان کے لئے مجاز
میں خود ہی دشمنوں کے نشانوں تک آگیا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل24
خواب ہو جیسے موتیوں والا
مسئلہ اپنا روٹیوں والا
لکھ دو ہر لفظ زاویوں والا
اک رجسٹر ہوں حاشیوں والا
چوک جانے کا اس میں خطرہ ہے
کھیل مت کھیل رسیوں والا
اتنا ویران ہو گیا کیسے
تھا جو اک شہر بستیوں والا
سرحدوں پر ہی امن کا مرہم
ڈھونڈ لے کاش گولیوں والا
اپنے گھر کو نہ کر سکا روشن
ہے ابھاگا بہت دیوں والا
آج کیا بات ہے جو میلے میں
رو دیا خود ہی گڈیوں والا
دیکھ کر آج کی نئی تہذیب
گھر بنانا نہ کھڑکیوں والا
گھر کے بیٹے اگر نہ کام آئے
ٹوٹ جائے گا بیٹیوں والا
کیسے بازی گری چلاؤ گے
گاوں میرا ہے صوفیوں والا
سب کتابیں سنہری یادوں کی
لے گیا مفت ردیوں والا
ہر طواف حرم مبارک ہو
ہے جو کردار حاجیوں والا
ڈھونڈ لینا مجھے مجاز اس میں
ہے یہ اخبار سرخیوں والا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل25
کس کو سکوں ملا ہے خزانے کی گود میں
شفقت نہ کر تلاش دکھانے کی گود میں
چس کو حقیقتوں نے کیا تھا تھا کبھی سلام
وہ شخص سو رہا ہے فسانے کی گود میں
سب کچھ ترے وجود میں مل جائے گا تجھے
کیا ڈھونڈتا ہے دوست زمانے کی گود میں
ہم بھی غرور اپنے ٹھکانے پہ کرتے آج
ملتا اگر قرار ٹھکانے کی گود میں
إلزام سب گوارہ ہے اے ہم وطن مجھے
تہمت لگا نہ آگ لگانے کی گود میں
تاریخ بن کے میں ہی نظر آؤں گا تمہیں
دکھو گئے جب بھی گزرے زمانے کی گور میں
کھو جاتے ہیں تمام عدالت کے فیصلے
تاريخ و التوا کے بہانے کی گود میں
میں تجربوں کا بوجھ ہوں کیسے اٹھاؤ گے
کوشش ہزار کر لو اٹھانے کی گود میں
پیروں پر اپنے چلنے دو ہر شیر خوار کو
اب یہ صدی نہیں ہے کھلانے کی گود میں
اپنے وطن میں رہتا ہوں میں اس طرح مجاز
جیسے ہو کوئی بچہ سیانے کی گود میں
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل26
ایسے جواں دِلوں کی جوانی سِمٹ گئی
اک پل میں جیسے رات سُہانی سِمٹ گئی
صدیوں کی داستان پُرانی سِمٹ گئی
دو چار لفظ ہی میں کہانی سِمٹ گئی
یہ کِس نے چُھو لیا کہ حیا کے مقام سے
چمپا کی ڈال رات کی رانی سِمٹ گئی
دیکھا زندگی کو پسینے سے تر بہ تر
جب زندگی کی اپنی نِشانی سمٹ گئی
دریا کو گِرتے دیکھے سمندر کے درمیاں
موجوں کی اپنی تیز روانی سِمٹ گئ
جذبات اور اُصول کے رشتے بدل گئے
جب حاشیئے میں ان کی کہانی سِمٹ گئی
دھرتی کو جب بہار کے موم نے دی صدا
آنچل میں دھانی دهانی روانی سِمٹ گئی
صحرا کی پیاس حد سے گزرنے لگی تو پھر
پی پی کے ریت دھوپ کا پانی سِمٹ گئی
فرقوں کی آگ اور بھڑ کنے لگی مجاز
جب مولوی کی شعلہ بیانی سِمٹ گئی
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 27
نہ جانے کیسے اُصولِ حنیف بُھول گیا
زبان سے اپنی جو ذِکر لطیف بُھول گیا
سِمٹ کے رہ گیا کم ظرفیوں کے گھیرے میں
وقارِ ظرف کو ناداں ظریف بُھول گیا
حواس و ہوش میں بھی کیسا وقت آیا ہے
وہ شخص اپنا ہی اِسم شریف بُھول گیا
ادب کے نام پہ اللہ رے ایسی بے ادبی
جوان ہے جو وہ قدرِ ضعیف بُھول گیا
وه شخص خود کو جو اچّھا کسان کہتا تھا
ربیع بُھول کے فصلِ خریف بُھول گیا
لگی وہ ضرب اُسے اپنے ہی ہتھوڑے سے
تمام لُطفِ فنونِ لطیف بُھول گیا
وہ میرے سامنے کیوں بدحواس ہے اتنا
کہ پڑھتے پڑھتے غزل کی ردیف بُھول گیا
ہر ایک جنگ میں اُس کا حساب جاری ہے
وہ ایک وار جو رن میں حریف بُھول گیا
مجاز کہتا ہے کُھل کر یہ نکتہ دانوں میں
نکاتِ فن میں جلی و خفیف بُھول گیا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 28
اپنی کہانی عام نہ کرنا
لفظوں کو بدنام نہ کرنا
پہلے سے حالات نہیں ہیں
گھر سے باہر شام نہ کرنا
بے موسم تپ جائے نہ سورج
ننگے سر پر گھام نہ کرنا
کوئی پہرے دار نہیں ہے
راتوں کو آرام نہ کرنا
پل کی چوری کرنے والے
صدیوں کو بدنام نہ کرنا
طوف ِحرم کے بعد اے زاہد
پھر گندہ احترام نہ کرنا
اپنے آپ میں پچھتا لینا
اُس کے سر اِلزام نہ کرنا
سرحد سرحد ایک صدا ہے
رشتوں کو گُمنام نہ کرنا
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
اوروں کو بدنام نہ کرنا
سب کچھ مجھ سے چھین کے میرا
کچھ بھی میرے نام نہ کرنا
دکھ مجاز اِن بازاروں میں
سودا لینا دام نہ کرنا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 29
یہ فائدہ تو ہوا زخمِ دِل سجانے سے
وہ آ گئے ہیں تماشائی کے بہانے سے
ہزاروں چاند نکل آئیں آساں پہ مگر
ستارے باز نہ آئیں گے جِھلمِلانے سے
برائے نام ہی میں گیت بن کے رہ جاتا
مجھے شعور ملِا تیرے گُنگُنانے سے
چلا گیا تھا جو کھا کر قسم نہ مِلنے کی
وہ چھت پہ آ ہی گیا پھر کِسی بہانے سے
بڑھا رہے ہو تم اپنی ہی آزمائش کو
قدم قدم پہ ہمیں اور آزمانے سے
تمہاری سائسیں ہیں دھڑکن ہمارے سینے کی
ہمارا باہمی رشتہ ہے اک زمانے سے
عجب نظارہ کہ شرما رہے تھے سب جُگنو
وہ یک بیک ترے گلشن میں کِھلکھِلانے سے
تمام خوشبوئیں قُربان تیری خوشبو پر
مہک اٹھا مِرا آنگن بھی تیرے آنے سے
مجاز نام ہے اُس کا کہ زخم کھا کر بھی
نہ باز آئے جو دریا دِلی دِکھانے سے
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 30
جو آسان پہ بنام نبیؐ نظر آئی
دل و نگاه میں تصویر وہ اُتر آئی
آڑی اڑی مِری بستی میں یہ خبر آئی
زمیں پہ آج پری کوئی پھر اُتر آئی
جنہیں پسند ہی قصّے کہانیاں وه سُنیں
ہمیں پسند تری بحثِ معتبر آئی
جِسے میں چھوڑ کے آیا تھا اُس کی گلیوں میں
وہ فکر میرے تعقّب میں عمر بھر آئی
ہر ایک سِمت ہواؤں کا شور بڑھنے لگا
بھٹک کے روحِ وفا جب سے در بدر آئی
دعائے عمر درازی جو سب کو دیتا تھا
اُسے کے حصّے میں کیوں عمرِمختصر آئی
یہ مصلحت ہے کہ تقدیر ہے کہ سازش ہے
کسی کے سر کی بلا پھر سے میرے سر آئی
کبھی لگائے تھے جِس نے ببول کے پودے
وہ آج پو چھے ہے کچھ آم کی خبر آئی
یقین ہو گیا مجھ کو قبول ہونے کا
دعا کو ہاتھ اٹھائے اور آنکھ بھر آئی
وہ نیند بن کے اُتر آیا جب سے آنکھوں میں
ہمارے خوابوں کی تعبیر بھی نِکھر آئی
ہر ایک سِمت اُجالوں کے بج اٹھے گُھنگرو
ہماری چھت پہ دبے پاؤں جب سحر آئی
مجاز زخموں کے تحفے بھی آگئے اُس کو
وفا پرستی کی سوغات جِس کے گھر آئی
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل31
یہ خبر کیسی چھپی تھی کل کے اخبارات میں
صبح کا سُورج نِکل آیا تھا آدھی رات میں
چھت سے کیوں بھاگا وہ چُپکے سے اندھیری رات میں
سر چُھپانے کو دیا تھا گھر جِسے برسات میں
جب بھی چاہو آزما لو تم ہمیں آفات میں
مُسکرانا جانتے ہیں ہم سبھی حالات میں
کھو گئے انسان سے انسان کے رشتے کہاں
سرحدوں سے گولیاں مِلنے لگیں سوغات میں
زندگی کی کاوشِ پیہم کا اک زنده بدل
ڈھونڈنے نِکلا ہوں تپتی ریت پر عرفات میں
سر اُٹھاتے کیوں نہیں اپنا صداقت کے لئے
ہم شہادت جِس طرح دیتے ہیں التحیّات میں
اس لئے میں اپنے دُشمن کو دُعا دینے لگا
آ نہ جائے میرا بیٹا بھی کہیں جذبات میں
اس کو یکجا کر کے اب ڈھونڈیں کوئی قائد نیا
جوش جو ناصر میں تھا اور ہوش تھا سادات میں
سامنے رہ کر بھی ہر مُجرم چُھپا رہ جائے گا
رشوتیں شامل اگر ہوں گیں نہ تحقیقات میں
قتل ہونا ہے فقط انسانیت ہی کا مجاز
برچھیاں جب جب اٹھیں گی سندھ یا گجرات میں
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 32
غلط ہے کوئی ابدالی نہیں ہے
ہمارا ہاتھ ہی خالی نہیں ہے
تماشہ ہے مگر تالی نہیں ہے
فضا بھی اِتنی متوالی نہیں ہے
بھکاری لوٹ جائیں میرے گھر سے
ابھی اتنی بھی کنگالی نہیں ہے
مہا بھارت کی ہو تکمیل کیسے
جہاں پر کوئی پنچالی نہیں ہے
جہاں چاہے پرکھ لینا مجھے تم
مری فطرت میں نقّالی نہیں ہے
میں شاعر ہوں مجھے نذرانہ کیسا
غزل پڑھتا ہوں قوّالی نہیں ہے
مُقّدر کے لئے رونے سے حاصل
مُقّدر ہے کوئی والی نہیں ہے
وطن کوئی تو ہو ایسا جہاں پر
گرانی اور بدحالی نہیں ہے
زمانے سے ڈراتے ہو مجھے کیوں
زمانہ ہے مِرا والی نہیں ہے
کہاں ڈالو گے اب ساون کے جھولے
درختوں پر ہی جب ڈالی نہیں ہے
أجالوں سے وہ کیوں ڈرتا ہے آخر
انا اُس کی اگر کالی نہیں ہے
اُترنا سامنے انجام رکھ کر
سمندر ہے کوئی نالی نہیں ہے
کرو گے کیا مجاز ایسی بہاریں
چمن میں جِس سے ہریالی نہیں
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل 33
نمودِ مہر نمازِ سحر میں رکھتے ہیں
دعا کے لفظ سجا کر اثر میں رکھے ہیں
ہم ایسی خوشبو گُل معتبر میں رکھتے ہیں
خدا کے بعد تمہیں کو نظر میں رکھتے ہیں
ہر اک نِگاہ کی حد ہے تمہارے جلووں تک
خُدا کے بعد تمہیں کو نظر میں رکھتے ہیں
اُنہیں پہ ہوتی ہیں پتھّر کی بارشیں اکثر
مِٹھاس پیڑ جو اپنے ثمر میں رکھتے ہیں
جو ختم ہو کے بھی ہوتا ہے اور تازہ تر
وہ انتظار ہم اپنی نظر میں رکھتے ہیں
ہمارا فلسفہ اُلجھا گیا تری نظریں
ہم ایسا نُقطہ ہی زیر و زبر میں رکھتے ہیں
ہمارے سجدے ہیں سر بازیاں ہماری ہیں
حرم کے ساتھ ہی کُوفہ بھی سر میں رکھتے ہیں
شفق کی لالی کہیں کھول کر نہ رکھ دے اِسے
جو راز پیرہنِ تر بہ تر میں رکھتے ہیں
ہر ایک باپ کو ہے خوف ایسے خنجر کا
چُھپا کے بیٹے جو اپنی کمر میں رکھتے ہیں
ہمارا حوصلہ زادِ سفر سے ظاہر ہے
کفن بھی ساتھ ہم اپنے سفر میں رکھتے ہیں
مجاز درد کے تحفے عزیز ہیں ہم کو
سجا کے ہم جو اِنہیں اپنے گھر میں رکھتے ہیں
نیاز احمد مجاز انصاری
تال پہ رکھ کر اس نے مجھے یوں چھوڑ دیا
اک تارے کا تار ہی دیکھا توڑ دیا
ماضی کے احساس نے اتنا توڑ دیا
مستقبل نے ہاتھ ہی میرا چھوڑ دیا
بیری تھا جو یگوں سے اپنی کشتی کا
ہم نے اس طوفان کا رُخ ہی موڑ دیا
اُس کو کیوں بھگوان سمجھ کر پوجے تو
ناداں جِس نے تیرا کِھلونا توڑ دیا
انسانوں کو رُوپ بدلتے دیکھا تو
گِرگِٹ نے خود رنگ بدلنا چھوڑ دیا
ایسے آیا پھر سے میرے سامنے وہ
گویا ٹکڑا کاغذ کا پھر جوڑ دیا
کتنا سچا انسان تھا وہ بستی کا
اس کے اپنے بول نے بھانڈا پھوڑ دیا
غزلوں کا مینار تھا میرے آنگن میں
بے ادبی کی مار نے جِس کو توڑ دیا
جِس کھاتے میں جوڑنے والے ٹوٹ گئے
میں نے اُنہیں کا جوڑ اسی میں جوڑ دیا
گیت کے میٹھے پن میں اتنا زہر ہے کیوں
کیوں سنگیت نے اس کو پینا چھوڑ دیا
آو مجاز اب گھر کی چوکھٹ لانگھ چلیں
اپنوں نے جب رشتوں کا رُخ موڑ دیا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل34
تال پہ رکھ کر اس نے مجھے یوں چھوڑ دیا
اک تارے کا تار ہی دیکھا توڑ دیا
ماضی کے احساس نے اتنا توڑ دیا
مستقبل نے ہاتھ ہی میرا چھوڑ دیا
بیری تھا جو یگوں سے اپنی کشتی کا
ہم نے اس طوفان کا رُخ ہی موڑ دیا
اُس کو کیوں بھگوان سمجھ کر پوجے تو
ناداں جِس نے تیرا کِھلونا توڑ دیا
انسانوں کو رُوپ بدلتے دیکھا تو
گِرگِٹ نے خود رنگ بدلنا چھوڑ دیا
ایسے آیا پھر سے میرے سامنے وہ
گویا ٹکڑا کاغذ کا پھر جوڑ دیا
کتنا سچا انسان تھا وہ بستی کا
اس کے اپنے بول نے بھانڈا پھوڑ دیا
غزلوں کا مینار تھا میرے آنگن میں
بے ادبی کی مار نے جِس کو توڑ دیا
جِس کھاتے میں جوڑنے والے ٹوٹ گئے
میں نے اُنہیں کا جوڑ اسی میں جوڑ دیا
گیت کے میٹھے پن میں اتنا زہر ہے کیوں
کیوں سنگیت نے اس کو پینا چھوڑ دیا
آو مجاز اب گھر کی چوکھٹ لانگھ چلیں
اپنوں نے جب رشتوں کا رُخ موڑ دیا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل35
کتابِ موسمِ گُل میں یہ باب آئے گا
کہ پھر سے سُوکھے شجر پر گلاب آئے گا
سوال میرا بھٹکتا رہا خلاؤں میں
میں منتظر تھا کہ اِس کا جواب آئے گا
جو خود کو بیچتا آیا ہے اک زمانے سے
وہ کیسے بن کے مثال نصاب آئے گا
کسِے خبر تھی کہ ایسی بھی روشنی ہوگی
وہ جب بھی آئے گا یوں بے حجاب آئے گا
جہاں سے تیر چلیں گے خدا کی قُدرت پر
اُسی مقام پہ سارا عذاب آئے گا
غزل کے حسن سے کہہ دو کہ اب وہ دور گیا
تجھے سراہنے کوئی نواب آئے گا
سنا ہے آج سمندر سے جنگ لڑنے کو
حُبابِ وقت بصد پیچ و تاب آئے گا
اُسی کے کان میں کھنکیں گے ہیر کے کنگن
جو اپنی سانسوں میں لے کر چناب آئے گا
مجاز شہر میں صحرا سا جو یہ منظر ہے
ضرور پھر کوئی خانہ خراب آئے گا
نیاز احمد مجاز انصاری
غزل35
تال پہ رکھ کر اس نے مجھے یوں چھوڑ دیا
اک تارے کا تار ہی دیکھا توڑ دیا
ماضی کے احساس نے اتنا توڑ دیا
مستقبل نے ہاتھ ہی میرا چھوڑ دیا
بیری تھا جو یگوں سے اپنی کشتی کا
ہم نے اس طوفان کا رُخ ہی موڑ دیا
اُس کو کیوں بھگوان سمجھ کر پوجے تو
ناداں جِس نے تیرا کِھلونا توڑ دیا
انسانوں کو رُوپ بدلتے دیکھا تو
گِرگِٹ نے خود رنگ بدلنا چھوڑ دیا
ایسے آیا پھر سے میرے سامنے وہ
گویا ٹکڑا کاغذ کا پھر جوڑ دیا
کتنا سچا انسان تھا وہ بستی کا
اس کے اپنے بول نے بھانڈا پھوڑ دیا
غزلوں کا مینار تھا میرے آنگن میں
بے ادبی کی مار نے جِس کو توڑ دیا
جِس کھاتے میں جوڑنے والے ٹوٹ گئے
میں نے اُنہیں کا جوڑ اسی میں جوڑ دیا
گیت کے میٹھے پن میں اتنا زہر ہے کیوں
کیوں سنگیت نے اس کو پینا چھوڑ دیا
آو مجاز اب گھر کی چوکھٹ لانگھ چلیں
اپنوں نے جب رشتوں کا رُخ موڑ دیا
نیاز احمد مجاز انصاری