Urdu Deccan

Wednesday, April 14, 2021

عبد الحمید عدم

 یوم پیدائش 10 اپریل 1910


لہرا کے جھوم جھوم کے لا مسکرا کے لا

پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا


کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں

جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا


ساغر شکن ہے شیخ بلا نوش کی نظر

شیشے کو زیر دامن رنگیں چھپا کے لا


کیوں جا رہی ہے روٹھ کے رنگینیٔ بہار

جا ایک مرتبہ اسے پھر ورغلا کے لا


دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر

اچھا تو جا عدمؔ کی صراحی اٹھا کے لا


عبد الحمید عدم


محمد علوی

 یوم پیدائش 10اپریل 1927


اور بازار سے کیا لے جاؤں

پہلی بارش کا مزا لے جاؤں


کچھ تو سوغات دوں گھر والوں کو

رات آنکھوں میں سجا لے جاؤں


گھر میں ساماں تو ہو دلچسپی کا

حادثہ کوئی اٹھا لے جاؤں


اک دیا دیر سے جلتا ہوگا

ساتھ تھوڑی سی ہوا لے جاؤں


کیوں بھٹکتا ہوں غلط راہوں میں

خواب میں اس کا پتہ لے جاؤں


روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا

آ تجھے دور اڑا لے جاؤں


آج پھر مجھ سے کہا دریا نے

کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں


گھر سے جاتا ہوں تو کام آئیں گے

ایک دو اشک بچا لے جاؤں


جیب میں کچھ تو رہے گا علویؔ

لاؤ تم سب کی دعا لے جاؤں


محمد علوی


امام بخش ناسخ

 یوم پیدائش 10 اپریل 1772


جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں

نام تیرا ہی لیا کرتے ہیں


چاک کرنے کے لیے اے ناصح

ہم گریبان سیا کرتے ہیں


ساغر چشم سے ہم بادہ پرست

مئے دیدار پیا کرتے ہیں


زندگی زندہ دلی کا ہے نام

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں


سنگ اسود بھی ہے بھاری پتھر

لوگ جو چوم لیا کرتے ہیں


کل نہ دے گا کوئی مٹی بھی انہیں

آج زر جو کہ دیا کرتے ہیں


دفن محبوب جہاں ہیں ناسخؔ

قبریں ہم چوم لیا کرتے ہیں


امام بخش ناسخ


ن م دانش

 یوم پیدائش 21مارچ 1958


وہ کسی بھی عکس جمال میں نہیں آئے گا

وہ جواب ہے تو سوال میں نہیں آئے گا


نہیں آئے گا وہ کسی بھی حرف و بیان میں

وہ کسی نظیر و مثال میں نہیں آئے گا


اسے ڈھالنا ہے خیال میں کسی اور ڈھب

وہ شباہت و خد و خال میں نہیں آئے گا


وہ جو شہسوار ہے تیغ زن رہ زندگی

مرے ساتھ وقت زوال میں نہیں آئے گا


یہاں کون تھا جو سلامتی سے گزر گیا

یہاں کون ہے جو وبال میں نہیں آئے گا


اسے لاؤں گا میں سکوت حرف و صدا میں بھی

وہ سخن کبھی جو سوال میں نہیں آئے گا


جو ہیں منتظر بڑی دیر سے انہیں کیا خبر

نہیں آئے گا کسی حال میں نہیں آئے گا


ن م دانش


امتیاز علی نظر

 یوم پیدائش 09 اپریل 1957


تم کو یہ پھول کسی کو یہ قمر لگتا ہے

فرق آنکھوں کا یہ قدرت کا ہنر لگتا ہے


سمجھو ایماں کی حرارت ہے ابھی بھی باقی

کچھ تو احساس برائی کا اگر لگتا ہے


سر یہ جھکتا ہے عبادت کے لئے بھی لیکن

دل کہیں ہے تو کہیں پر مرا سر لگتا ہے


ظلم ہوتا ہے  پہ  ظالم نہیں ملتا کوئی

سب بری ہوتے ہیں انصاف سے ڈر لگتا ہے


موت آتی ہے اسے اور نہ شفا ہی ملتی

یہ تو مظلوم کی آہوں کا اثر لگتا ہے


جرم کرتا ہے کوئی بنتا ہے مجرم کوئی

قتل انصاف کا مجھ کو یہ نظر لگتا ہے


امتیاز علی نظر


منیر نیازی

 یوم پیدائش 09 اپریل 1928


بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا


چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی

اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا


اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے

پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا


اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے

اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا


عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی

جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا


منیر نیازی


ڈاکٹر شاہد

 یوم پیدائش 08 اپریل 1981


تھا زخم خوردہ ہر اک جس پری کی آنکھوں کا

نشانہ بن گئے ہم بھی اسی کی آنکھوں کا


یہ بات کہہ دے کوئی جاکے ان سے انکے بغیر

ادھورا خواب ہوں میں زندگی کی آنکھوں کا


نہ جانے کب کہاں کس وقت یہ بدل جائیں

بھروسہ کچھ بھی نہیں آدمی کی آنکھوں کا


کہ موج بن کے کبھی دل میں جسکے رہتا تھا

میں خشک دریا ہوں شاید اسی کی آنکھوں کا


ڈاکٹر شاہد


علی اسد لاشاری

 یوم پیدائش 08 اپریل 1986

 

میں کہہ رہا ہوں اسے بتاؤ تمہارے جیسا کہیں نہیں ہے

غزال آنکھوں کو مت چھپاؤ تمہارے جیسا کہیں نہیں ہے

 

تمہیں خبر ہے تمہارے ہونٹوں کا تل بھی شاید اداس ہوگا 

زرا سا تم بھی تو مسکراؤ تمہارے جیسا کہیں نہیں ہے

 

طویل مدت سے سن رہا ہوں تمہارے قدموں کی چاپ میں بھی 

تمہیں قسم ہے کہ لوٹ آؤ تمہارے جیسا کہیں نہیں ہے 


یہ خواہش ِ وصل جانے کب سے ہمارے دل میں مچل رہی تھی 

سو جب بھی آؤ گلے لگاؤ تمہارے جیسا کہیں نہیں ہے


چلا گیا ہے تو کیا ہوا ہے تم اس کی خاطر حسین لڑکی

یہ اشک اپنے نہ یوں بہاؤ تمہارے جیسا کہیں نہیں ہے 


علی اسد لاشاری


صادقہ نواب سحر

 تمہاری یاد میں ڈوبے کہاں کہاں سے گئے

ہم اپنے آپ سے بچھڑے کہ سب جہاں سے گئے


نئی زمین کی خواہش میں ہم تو نکلے تھے

زمین کیسی یہاں ہم تو آسماں سے گئے


زمانے بھر کو سمیٹا تھا اپنے دامن میں

پلٹ کے دیکھا تو خود اپنے ہی مکاں سے گئے


یہ کھوٹے سکے ہیں الفاظ اس صدی کی سنو

یہ ان کا دور نہیں یہ تو اس جہاں سے گئے


سحر فضول کی خواہش ہے زندگی جینا

مرے تو لوگ نہ جانیں گے کس جہاں سے گئے


صادقہ نواب سحر


ناصر زیدی

 یوم پیدائش 08 اپریل 1943


وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت

وہی عزیز اسی سے محبتیں تھیں بہت


وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب ہی نہ تھی

بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت


ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے

ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت


پہنچ گئے سر منزل تری تمنا میں

اگرچہ راہ کٹھن تھی صعوبتیں تھیں بہت


وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا

ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت


ہمیں خود اپنے ہی یاروں نے کر دیا رسوا

کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت


ہمارے بعد ہوا اس گلی میں سناٹا

ہمارے دم سے ہی ناصرؔ حکایتیں تھیں بہت


ناصر زیدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...