Urdu Deccan

Wednesday, April 14, 2021

طلعت منیر

 ترک دنیا کو بھی اک کار خطا رکھا ہے

عشق مخلص کو بھی دنیا میں پھنسا رکھا ہے


ہجر کی آگ میں جلتا رہا بے لوث جنوں

وصل پر جسم کا چلمن سا گرا رکھا ہے


تیری قربت ہو میسر تو الگ ہے ورنہ

تیری حوروں تری جنت ہی میں کیا رکھا ہے


ان خطاؤں کی سزا میری محبت کو نہ دے

جن کو خود تو نے جبلت میں اٹھا رکھا یے


اپنے ہونے کا سبب پوچھتے پھرتے ہیں یہ سب

جن سے عالم کو تو نے اپنے سجا رکھا ہے 


طلعت منیر


زاہد ساویز

 یوم پیدائش 12 اپریل 1967


وہم وحشت خوف دھڑکا کیا بچالے گا تجھے

تیرے اندر کا یہ ڈر ہی مار ڈالے گا تجھے


ہر کسی کو مت سنایا کر تو اپنی داستاں

ہر کوئی پھر چسکے لے لے کے اچھالے گا تجھے


کچھ نہ کہہ پائے گا تو جذبات کو قابو میں رکھ

وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی دبا لے گا تجھے


تو سمجھتا ہے بہت ہشیار خود کو پر وہ شخص

دیکھنا پھر اپنے چنگل میں پھسا لے گا تجھے


جاتو تو ایسے رہا ہےاس سے ملنے کے لئے

جیسے اٹھ کر وہ گلے سے ہی لگا لے گا تجھے


وقت اور حالات پہلے سے موافق اب نہیں

کون اب ساویز ایسے میں سنبھالے گا تجھے


زاہد ساویز


طاہر گل

 یوم پیدائش 12 اپریل 1968


اے دوست دل حیات سے محوِ نبرد ہے

مت یہ گمان کر کہ مرا خون سرد ہے


میں ہوں تلاشِ منزلِ ہستی کو گامزن

چہرے پہ میرے دیکھ لے صدیوں کی گرد ہے


اس کو بھی میری حالتِ دل کی ہے کچھ خبر

معمول سے زیادہ خزاں اب کے زرد ہے


تو نے بس اک غبار کو منزل سمجھ لیا

اک دشتِ بے کراں پسِ دیوارِ گرد ہے


گزرے ہیں جس کے قیس اور فرہاد نامور

طاہر اسی قبیلہء وحشی کا فرد ہے


طاہرگل


سید انصر

 یوم پیدائش 10 اپریل 


کبھی کبھار ملاقات کا بہانہ بنے

پھر اس کے بعد بلا سے کوئی فسانہ بنے


عجب نہیں ہے کہ اس بار دو اناوں کی جنگ

جہان بھر کی تباہی کا شاخسانہ بنے


وہ سب جہان کا ہے سب جہان اس کا ہے

بس ایک میرے لئے اس کے دل میں جا نہ بنے


ہزار شکر کہ ہم پر گلوں کی بارش ہے

مگر وہ لوگ جو بارود کا نشانہ بنے


حسینیت کی کرامات کا ظہور کہاں 

کہ جب تلک کوئی جنگاہ کربلا نہ بنے


  سید انصر


سید ناصر مستجاب

 یوم پیدائش 10 اپریل 1978


صد شکر زمانے سے جدا بیچ رہے ہیں

ہم دشت میں بارش کی دعا بیچ رہے ہیں


کیوں حرمتِ قرآن کی قسموں کو ا ٹھا کر

کچھ لوگ عدالت میں خدا بیچ رہے ہیں


رہبر ہیں مرے ملک میں فنکار بلا کے

وعدوں کے غباروں میں ہوا بیچ رہے ہیں 


صدیوں سے چلی آتی کہانی کے ردھم میں 

درویش صفت لوگ نیا بیچ رہے ہیں


اس ملکِ خدا داد میں اسلام کے داعی

پردے میں ثقافت کے حیا بیچ رہے ہیں


کھلتی ہوئی کلیوں کو یہ بازار میں لا کر

نوخیز جوانی کا مزہ بیچ رہے ہیں


اندھے توحقیقت میں وہی لوگ ہیں ناصر 

اندھوں کے نگر میں جو دیا بیچ رہے ہیں


سید ناصر مستجاب


اے جی جوش

 یوم پیدائش 11 اپریل 1928


جفاؤں سے تمہاری اپنی تکمیل وفا ہوگی

خرد کی ابتدا ہو گی جنوں کی انتہا ہوگی


کسی کے دل کی دنیا بھی کبھی درد آشنا ہو گی

جو میرے دل سے ابھرے گی وہی اسکی صدا ہوگی


وہ جینے بھی نہیں دیتے وہ مرنے بھی نہیں دیتے 

تو پھر یہ زندگی کیسے بسر میرے خدا ہوگی


اٹھایا جام ساقی نے مرے آگے سے یہ کہہ کر

اگر تم اور پی لو گے تو محفل بے مزا ہوگی


مجھے ہر بار دھوکا دیتی ہے دھڑکن مرے دل کی

یہی ہر دم سمجھتا ہوں تری آواز پا ہو گی


مری باتوں پہ چپ رہنا مرے رونے پہ ہنس دینا

میں سمجھا یہ بھی اس کے حسن کی کوئی ادا ہوگی


جلیں گی اور بجھیں گی شمعیں انکی برم میں لیکن

نہ ہوگا جوش جس محفل میں وہ محفل بھی کیا ہوگی


اے جی جوش


انور شعور

 یوم پیدائش 11 اپریل 1943


فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا


کیا کرتے تھے باتیں زندگی بھر ساتھ دینے کی

مگر یہ حوصلہ ہم میں جدا ہونے سے پہلے تھا


حقیقت سے خیال اچھا ہے بیداری سے خواب اچھا

تصور میں وہ کیسا سامنا ہونے سے پہلے تھا


اگر معدوم کو موجود کہنے میں تأمل ہے

تو جو کچھ بھی یہاں ہے آج کیا ہونے سے پہلے تھا


کسی بچھڑے ہوئے کا لوٹ آنا غیر ممکن ہے

مجھے بھی یہ گماں اک تجربہ ہونے سے پہلے تھا


شعورؔ اس سے ہمیں کیا انتہا کے بعد کیا ہوگا

بہت ہوگا تو وہ جو ابتدا ہونے سے پہلے تھا


انور شعور


جاوید سرور

 یوم پیدائش 10 اپریل 1956


رنگ برنگے پھول کھلے ہیں آنگن کے گلدانوں میں

آج حقیقت چھپی ہوئی ہے دنیا کے افسانوں میں


قہرِ خداوندی سے یارب دنیا کو چھٹکارا دے

دعا یہی ہے شامل یا رب سب کے ہی ارمانوں میں


قیدی جیسا جیون سبکا آج گھروں میں سمٹا ہے

خوف کرونا کا چھایا ہے قید ہیں سب زندانوں میں


بھول کے ہم سب رب کو بیٹھے تب ہی توآفت آئی 

شعرا ادبا الجھ گئے ہیں شمع میں پروانوں میں


اپنوں سے اے سرور ہم نے اکثر دهوکا کھایا ہے

بھائی چارہ کی خوبی دیکھی ہم نے بیگانوں میں


جاوید سرور


ابو محمد سحر

 یوم پیدائش 10اپریل 1928


اک تحفہ نو سوئے حرم لے کے چلے ہیں

پہلو میں محبت کا صنم لے کے چلے ہیں


صحرا میں کہاں پر توِ اندازِ گلستان

خود اپنی نگاہوں کا بھرم لے کے چلے ہیں


کیا حال ہے دل کا اسے اب کون بتائے

محفل میں تری دیدۂ نم لے کے چلے ہیں


کانٹوں کا گلہ کیا ہے ہم راہِ طلب میں

اک دشتِ بلا زیر قدم لے کے چلے ہیں


ہر جنبشِ پا کاشفِ اسرار جہاں ہے

ہم جب بھی چلے ساغرِ جم لے کے چلے ہیں


سرمایۂ دل،جنسِ وفا، خواب تمنا

کیا کیا سرِ بازارِ ستم لے کے چلے ہیں


آئی ہے کسی جلوہ گہ ِناز کی پھر یاد

بھولے ہوئے کچھ قول و قسم لے کے چلے ہیں


منزل پہ پہنچ کر عجب افتاد پڑی ہے

اک قافلۂ یاس و الم لے کے چلے ہیں


کام آئی نہ تدبیر کوئی اہل ِوفا کی 

آخر وہی تقدیر کا غم لے کے چلے ہیں


سوزِ غمِ الفت کہ سحر سوزِ غمِ دہر

ہر سوز پئے لوح و قلم لے کے چلے ہیں


ابو محمد سحر


ذوالفقار نقوی

 آئینوں کو غلام رکھا ہے

ہم نے پہرہ مدام رکھا ہے


صورتیں عکس کے منافی ہوں

بس یہی اہتمام رکھا ہے


اپنے سائے پہ گر گئی دیوار

دشت میں اب قیام رکھا ہے


اے کلیسا کے واعظوں تم نے 

کیسا پھیلا کے دام رکھا ہے


ایک ریلا ہے بد شگونی کا

جو نگاہوں نے تھام رکھا ہے


اس کی اپنی اَنا نہیں ٹوٹی

 جس کو تم نے امام رکھا ہے


رقص کرتی ہے تشنگی لب پر

گرچہ ہاتھوں میں جام رکھا ہے


لحظہ لحظہ جو موت ہے نقوی

زندگی اس  کا  نام رکھا ہے


ذوالفقار نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...