Urdu Deccan

Friday, April 23, 2021

شہزاد احمد

 یوم پیدائش 16 اپریل 1932


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا


وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی

احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا


یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا

جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا


بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں

دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا


شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط

وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا


گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا


تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد

جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا


رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے

اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا


ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی

وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا


شہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے

جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا


شہزاد احمد


شہزاد خان

 یوم پیدائش 16 اپریل 1987


بقا کی راہ پہ چل کر فنا سے عشق ہوا

ارے چراغ کو کیسے ہوا سے عشق ہوا؟ 


کسی کو شاہ کسی کو گدا سے عشق ہوا

کوئی نہیں جسے اپنی رضا سے عشق ہوا


کہاں میں عام سا بندہ کہاں پہ تیرا جنون

مکینِ خاک کو کیوں کبریا سے عشق ہوا؟ 


تمام شہر ہی گریہ کناں ہے دل کے سبب

تمام شہر کو اُس بے وفا سے عشق ہوا


یہ چاشنی یہ دمک یوں نہیں ہے چہرے پر

خطیبِ حق کو مکمل، خدا سے عشق ہوا


بشر کا جبر مسلط رہے گا دنیا پر

بشر کو خُون میں رنگی رِدا سے عشق ہوا


شہزاد خان


زبیر رضوی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1935


بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو

تعلق کی گرانباری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو


بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو


برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے

ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو


دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو


بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹوٹ کر ملنا

کوئی بڑھتی ہوئی دوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو


نقوش خال و خد میں دل نوازی کی ادا کم ہے

حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو


ہمیں پر ختم کیوں ہو داستان خانہ ویرانی

جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو


زبیر رضوی


اظہر عنایتی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1946


ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے


نہ جانے شہر میں کس کس سے جھوٹ بولوں گا

میں گھر کے پھولوں کو شاداب دیکھنے کے لیے


اسی لیے میں کسی اور کا نہ ہو جاؤں

مجھے وہ دے گیا اک خواب دیکھنے کے لیے


کسی نظر میں تو رہ جائے آخری منظر

کوئی تو ہو مجھے غرقاب دیکھنے کے لیے


عجیب سا ہے بہانا مگر تم آ جانا

ہمارے گاؤں کا سیلاب دیکھنے کے لیے


پڑوسیوں نے غلط رنگ دے دیا اظہرؔ

وہ چھت پہ آیا تھا مہتاب دیکھنے کے لیے


اظہر عنایتی


ہری چند اختر

 یوم پیدائش 15 اپریل 1900


ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہوگا

بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا


رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہوگا

کسی نے کچھ لکھا ہوگا کسی نے کچھ لکھا ہوگا


بروز حشر حاکم قادر مطلق خدا ہوگا

فرشتوں کے لکھے اور شیخ کی باتوں سے کیا ہوگا


تری دنیا میں صبر و شکر سے ہم نے بسر کر لی

تری دنیا سے بڑھ کر بھی ترے دوزخ میں کیا ہوگا


سکون مستقل دل بے تمنا شیخ کی صحبت

یہ جنت ہے تو اس جنت سے دوزخ کیا برا ہوگا


مرے اشعار پر خاموش ہے جز بز نہیں ہوتا

یہ واعظ واعظوں میں کچھ حقیقت آشنا ہوگا


بھروسہ کس قدر ہے تجھ کو اخترؔ اس کی رحمت پر

اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا


ہری چند اختر


نشور واحدی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1912


وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے

آدمی اپنی ہی منزل میں ٹھہر جاتا ہے


ایک بگڑی ہوئی قسمت پہ نہ ہنسنا اے دوست

جانے کس وقت یہ انسان سنور جاتا ہے


اس طرف عیش کی شمعیں تو ادھر دل کے چراغ

دیکھنا یہ ہے کہ پروانہ کدھر جاتا ہے


جام و صہبا کی مجھے فکر نہیں اے غم دل

میرا پیمانہ تو اشکوں ہی سے بھر جاتا ہے


ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا

دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے


حال میرے لیے ہے لمحۂ آئندہ نشورؔ

وقت شاعر کے لیے پہلے گزر جاتا ہے


نشور واحدی


حسرت جے پوری

 یوم پیدائش 15 اپریل 1922


شعلہ ہی سہی آگ لگانے کے لیے آ

پھر نور کے منظر کو دکھانے کے لیے آ


یہ کس نے کہا ہے مری تقدیر بنا دے

آ اپنے ہی ہاتھوں سے مٹانے کے لیے آ


اے دوست مجھے گردش حالات نے گھیرا

تو زلف کی کملی میں چھپانے کے لیے آ


دیوار ہے دنیا اسے راہوں سے ہٹا دے

ہر رسم محبت کو مٹانے کے لیے آ


مطلب تری آمد سے ہے درماں سے نہیں ہے

حسرتؔ کی قسم دل ہی دکھانے کے لئے آ


حسرتؔ جے پوری


Wednesday, April 14, 2021

شاہین کاظمی

 آرزو کے سراب 


اُسی نیم شب کے سکوت میں

وہی چاپ تھی وہی آہٹیں


وہ رُکی رُکی سی ہوائےشب

وہ تھمی تھمی سی تھیں دھڑکنیں


وہی عشقِ پیچاں کی بیل تھی 

مری کھڑکیوں پہ جھکی ہوئی


وہی بام و در وہی راستے 

وہی موڑ تھا وہی بے بسی


وہی ڈھلتے چاند کی چاندنی

وہی دُکھتے سانس کے روگ تھے


وہی خواہشیں وہی زندگی

وہی سارے غم وہی سوگ تھے


وہی آنکھ تھی وہی رتجگے

وہی راکھ راکھ سے خواب تھے


وہی فاصلوں کی رداء رہی

وہی آبلوں کے عذاب تھے


وہی طاقچوں میں دھری ہوئی 

مری آس تھی مرے خواب تھے


وہی عشقِ پیچاں کی بیل ہے

وہی اَدھ جلے سے گلاب ہیں


انھیں طاقچوں میں دھری ہوئی

مری آس ہے مرے خواب ہیں


وہی دھوپ ہے وہی دشتِ جاں 

وہی آرزو کے سراب ہیں


شاھین کاظمی


ارشد عبد الحمید

 یوم پیدائش 13 اپریل 1958


سخن کے چاک میں پنہاں تمہاری چاہت ہے

وگرنہ کوزہ گری کی کسے ضرورت ہے


زمیں کے پاس کسی درد کا علاج نہیں

زمین ہے کہ مرے عہد کی سیاست ہے


یہ انتظار نہیں شمع ہے رفاقت کی

اس انتظار سے تنہائی خوبصورت ہے


میں کیسے وار دوں تجھ پر مرے ستارۂ شام

یہ حرف خواب تو اک چاند کی امانت ہے


میں خاک خواب پلک سے جھٹکنے والا تھا

پتا چلا کہ یہی حاصل مسافت ہے


یہ مستطیل سا خاکہ کہ جس کو گھر کہیے

اسی کے دائرہ و در میں میری جنت ہے


یہ خوشہ چینی خوان انیسؔ ہے ارشدؔ

نمک نمط جو مرے شعر میں فصاحت ہے


ارشد عبد الحمید


فضل حیات حیات

 یوم پیدائش 13اپریل 1970


خداؤں سے بغاوت کر رہا ہوں 

میں اپنی جان غارت کر رہا ہوں 


فقط اللہ ہے سجدے کے لائق 

سبھی کو یہ نصیحت کر رہا ہوں


گریباں سے پکڑنا ہے سبھی کو 

دلیری کی جسارت کر رہا ہوں


 اندھیرے بھی پلٹ جائیں گے آخر

 میں قرآں کی تلاوت کر رہا ہوں


ہمیشہ خواب یہ دیکھا ہے آقا

ترے در کی زیارت کر رہا ہوں


فضل حیات حیات


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...