Urdu Deccan

Tuesday, May 4, 2021

انس مسرور انصاری


 یوم پیدائش 02 مئی 1952


مشکل پڑی تو میں نے اٹھائے دعا کو ہاتھ

اب میری آبرو ہے رسول خدا کے ہاتھ


کوئی بڑا نہ چھوٹا تری بارگاہ میں

یکساں تری نظرمیں ہیں شاہ و گدا کے ہاتھ


میری طرف بھی ایک نگاہ کرم حضور

پھیلے ہوئے ہیں دیر سے اک با وفا کے ہاتھ


سورج پلٹ پڑا کبھی مہتاب شق ہوا

وہ معجزے دکھائے نبی نے اٹھا کے ہاتھ


سنتا ہوں روز جاتی ہے سوئے در حبیب

بھیجوں گا میں سلام محبت صبا کے ہاتھ


ہونٹوں پہ حرف شوق ہے آنکھوں میں اشک غم

رحمت سے اپنی بھر دو مری التجا کے ہاتھ


جن رفعتوں پہ میرے نبی کے قدم گئے

پہنچیں گےحشر تک بھی نہیں ارتقاء کے ہاتھ


شرمندہ اس قدر ہوں گناہوں پہ آج میں

اٹھتے نہیں ہیں بار حیا سے دعا کے ہاتھ


مسرور کو طلب سے زیادہ ہی مل گیا

کتنے شفیق ہیں ترے حسن عطا کے ہاتھ


انس مسرورانصاری

معظم علی خان

 یوم وفات 01/05/2021


پتھروں کے درمیاں بہتی ندی اچھی لگی

جب حصار غم میں گزری زندگی اچھی لگی


ایک پتھر پھینکنے پر گاؤں کے تالاب میں

پر سکوں موجوں کی اکثر برہمی اچھی لگی


شب کی تنہائی میں دروازے پہ دستک دفعتاً

گھپ اندھیرے میں اچانک روشنی اچھی لگی


بخشی ہے چاندنی کہرے کو بھی تابانیاں

اس کے چہرے پر اداسی ہی سہی اچھی لگی


جس طرح چاہا تصور نے تراشا وہ بدن

بستر احساس پر اس کی کمی اچھی لگی


درمیاں کانٹوں کے بھی شاداب تھے مسرور تھے

جانے کیوں پھولوں کی یہ شائستگی اچھی لگی


اب کے ہم بھٹکے تو راہ راست پر آجائیں گے

سیدھے رستے سے معظم گمرہی اچھی لگی


معظم علی خان


سحر کاظمی

 پوچھا کسی نے حال تو میں نے زمین پر 

بجھتے ہوئے چراغ کا منظر بنا دیا 

سحر کاظمی


یوم وفات 01/05/2021


اعجاز انصاری

 جب لوگ مرے قتل کی تحقیق کریں گے

ممکن ہے کہ قاتل مرے اپنے نکل آئیں


اعجاز انصاری


شاہد کبیر

 یوم پیدائش 01 مئی 1932


روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے

لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے


جسم کو آئنہ دکھلاتے ہیں سائے ورنہ

آدمی کے لیے اچھا تھا اجالوں میں رہے


وقت سے پہلے ہو کیوں ذہن پہ خورشید کا بوجھ

رات باقی ہے ابھی چاند پیالوں میں رہے


پھر تو رہنا ہی ہے گھورے کا مقدر ہو کر

پھول تازہ ہے ابھی ریشمی بالوں میں رہے


شوق ہی ہے تو بہرحال تماشا بنیے

یہ ضروری نہیں وہ دیکھنے والوں میں رہے


اب کلنڈر میں نیا ڈھونڈئیے چہرہ شاہدؔ

کب تلک ایک ہی تصویر خیالوں میں رہے


شاہد کبیر


عزیز رحمان

 یوم پیدائش 01 مئی 1949


مجھے اے زندگی آواز مت دے

نہیں منزل کوئی پرواز مت دے


جئے جاتا ہوں عادت بن چکی ہے

نہیں سر لگتے یا رب ساز مت دے


نیا ہے روپ عالم کا خدایا

انوکھا اب مجھے انداز مت دے


نتیجہ جانتا ہوں دل لگی کا

سزائیں فاختہ کو باز مت دے


پس پردہ رہا ہے بھید اب تک

نہیں حامل انہیں تو راز مت دے


رہا انجام ہے جن کی نظر میں

انہیں جو چاہے دے آغاز مت دے


نبھایا فرض ہی کب حکمراں کا

کسی قاتل کو تو اعزاز مت دے

 

عزیر رحمان


سمسون مخزن


 یکم مئی زندہ باد(نظم)


اب ظلم مٹے گا جہاں دستور چلیں گے 

حق مانگنے اپنا سبھی مزدور اٹھیں گے


حق مارا ہے جس جس نے بھی مزدور کا سن لے 

پیتا ہے لہو جو جو بھی مجبور کا سن لے 

اب راج تو یہ ظلم کے مٹ کر ہی رہیں گے 

حق مانگنے اپنا سبھی مزدور اٹھیں گے 


اب چال تمہاری نہ کوئی کام کرے گی 

اب حق کے لیے ساری ہی یہ قوم لڑے گی 

اب جبر تمہارا نہ کبھی اور سہیں گے 

حق مانگنے اپنا سبھی مزدور آٹھیں گے 


ظالم کا اجارہ نہ کسی چیز پہ ہو گا 

حق سب کا برابر جہاں جاگیر میں ہو گا 

ایسا نہ ہوا تو بڑے فتور پڑیں گے 

حق مانگنے اپنا سبھی مزدور اٹھیں گے 


 سمسون مخزن

خالد اعظم

 یوم پیدائش 01 مئی 1971


منصف! یہ مرے صبر کی بھی آخری حد ہے

جو فیصلہ ہے تیرے مظالم کی سند ہے


منظور جہاں کو نہیں باطل کا تصور

بس فلسفۂ حق ہے جو نا قابلِ رد ہے


آئینۂ تہذیب تھے جو لوگ اب ان کا

اخلاق بھی معیوب ہے کردار بھی بد ہے


یہ کیا کہ بدن بھی نہ چھپا پاؤں خدایا

چادر مجھے ایسی دے کہ جیسا مرا قد ہے


بخشی ہے مجھے رب نے قناعت کی یہ دولت

لوگوں کا کرم ہے نہ حکومت کی مدد ہے


ایسے بھی بہت لوگ ہیں اس بزم ہوس میں

جو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہاں کون سا مد ہے


سو جائیں گے بچے تو میں گھر جاؤں گا خالد

ہے ہاتھ میں پیسہ، نہ مرے گھر میں رسد ہے


 خالد اعظم 


حکیم محبوب زاہد

 یوم پیدائش 01 مئی 1962


گریباں چاک سینا آ گیا کیا

ستم سہہ کر بھی جینا آگیا کیا


تری آنکھوں میں راحت ہےچمک ہے

تصّور میں مدینہ آ گیا کیا


بڑے قلاش تھے اب ہو تونگر

اطاعت کا قرینہ آ گیا کیا


ہماری بات سن کر پوچھتے ہو

جبینوں پر پسینہ آ گیا کیا


تمہاری آنکھ میں اب نم نہیں ہے

تمہیں بھی اشک پینا آ گیا کیا


خدا کو مانتے ہو اب کہیں سے

تیقّن کا خزینہ آ گیا کیا


ہمارے ساتھ کیوں رہتے ہو الجھے

تمہارے دل میں کینہ آ گیا کیا


بہت شاداں نظر آتے ہو زاہد

ملن کا پھر مہینہ آ گیا کیا


حکیم محبوب زاہد


ملک شجاع شاذ

 یوم پیدائش 01 مئی 1977


طے شدہ عشق سرِ دار نبھانا ہو گا

جو بھی لکھا ہے مرے یار نبھانا ہو گا


تم نے دیوانے کو ہنستے ہوئے دیکھا ہے کبھی

اب کہانی میں یہ کردار نبھانا ہو گا


وہ جو اک شخص پراسرار نظر آتا ہے

میری وحشت کا خریدار نظر آتا ہے


دلِ درویش صفت شور نہ کر چپ ہو جا

جب تو روتا ہے گنہ گار نظر آتا ہے


یا کسی اور کے ہیں نقش مرے چہرے پر

یا مجھے آئینے کے پار نظر آتا ہے


جب سے میں تیرا طلبگار ہوا ہوں اے دوست

ہر کوئی میرا طلب گار نظر آتا ہے


دکھ تو یہ ہے وہ مرے ساتھ نہیں رہ سکتا

جو مرے ساتھ لگاتار نظر آتا ہے


جو ترے شہر میں بنیادِ محبت تھا شاذ

آج وہ شخص بھی مسمار نظر آتا ہے


ملک شجاع شاذ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...