Urdu Deccan

Monday, May 24, 2021

آسناتھ کنول

 یوم پیدائش 17 مئی 1975


انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے

بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے


بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی

تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے


کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی

تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے


یہ محبت عمر بھر کا روگ ہے

مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے


بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں

فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے


زندگی اک ساز ہے لیکن کنولؔ

بے صدا ہونے سے پہلے سوچ لے


آسناتھ کنول


عقیل فاروق

 وہ جو تھا وہ مل بھی جائے گا تو کیا

پھول دل کا کھل بھی پائے گا تو کیا

دیکھنا تنہا ہی ہم رہ جائیں گے

وہ ہمارے پاس آئے گا تو کیا


عقیل فاروق


محشر فیض آبادی

 عید کو جو نہ پٹے اس کا مقدر کیا ہے

مار کھائے نہ جو بیوی کی وه شوہر کیا ہے

جس کی تعریف میں بکواس کیا کرتا ہوں

آج تک اس نے یہ سمجھا نہیں محشر کیا ہے


محشر فیض آبادی


امیر مہدی

 یوم پیدائش 15 مئی


شورِ ماتم جو بپا ہو تو چلے جایئےگا

جان جب تن سے جدا ہو تو چلے جایئےگا


آپ سے دیکھا نہ جائے گا تڑپنا میرا

درد جب حد سے سوا ہو تو چلے جایئےگا


قبض کرنے کو مری روح سرہانے میرے

ملک الموت کھڑا ہو تو چلے جایئے گا


ہاتھ رکھ دیجئے سینے پہ کہ آ جائے قرار

دل کو آرام ذرا ہو تو چلے جایئےگا


صحنِ گلشن میں ابھی گرم ہوا چلتی ہے

آمد ِباد صبا ہو تو چلے جایئےگا


ابھی ڈوبے نہیں گردوں پہ ستارے جاناں

چاند جامن پہ. جھکا ہو تو چلے جایئےگا


امیر مہدی


گل جہاں

 یوم پیدائش 15 مئی 1983


کل صبج دیا رکھ دیا یوں میں نے افق پر

جلتا تھا جو سورج کی طرح بامِ فلک پر


کر دیتی ہے موجودگی تنہائی پہ افشاء

آتا ہے بہت غصہ مجھے اپنی مہٙک پر


تجھ رنگ سے واقف جو نہ ہوتی مری آنکھیں

انگشت بدندان میں ہو جاتا دھنک پر


تارا ہوں غلط برج کا کیا میرا مقدر

مٙیں ٹک نہیں پاتا کسی ابجد میں ، ورٙق پر


شاید کہ نکل آئیں محبت کے معانی

اک نظم اگر لکھوں میں عورت کی جھجھک پر


لا پاتا نہیں روح تلک کھینچ کے خود کو

گھس جاتا ہے یہ سارا بدن اندھی سڑک پر


گلیوں میں اندھیرے کا رہا گشت مسلسل

پر اپنا عقیدہ رہا جگنو کی چمک پر


تو سارے کا سارا تو مجھے ہضم نہ ہو گا

بھاری ہیں فقط آنکھیں مرے چودہ طبق پر


کیوں اِس سے ہر اک ذائقہ یہ زہر کی رد کیوں؟

پہنچے ہی نہیں فلسفی گل رازِ نمک پر


گل جہاں


خورشید احمد جامی

 یوم پیدائش 15 مئی 1915


کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی

دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی


ایک اک کر کے ابھرتی ہیں کئی تصویریں

سر جھکائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے کوئی


غم کی وادی ہے نہ یادوں کا سلگتا جنگل

ہائے ایسے میں کہاں چھوڑ گیا ہے کوئی


یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں

میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی


جب بھی دیکھا ہے کسی پیار کا آنسو جامیؔ

میں نے جانا مرے نزدیک ہوا ہے کوئی


خورشید احمد جامی


رنجور عظیم آبادی

 یوم پیدائش 15 مئی 1863


جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے

تماشے کو عجب کیا وہ بت دمباز آ نکلے


اگر دیوانہ تیرا جانب کہسار جا نکلے

قبور وامق و مجنوں سے شور مرحبا نکلے


ابھی طفلی ہی میں وہ بت نمونہ ہے قیامت کا

جوانی میں نہیں معلوم کیا نام خدا نکلے


کہاں وہ سرد مہری تھی کہاں یہ گرم جوشی ہے

عجب کیا اس کرم میں بھی کوئی طرز جفا نکلے


مرا افسانہ ہے مجذوب کی بڑ گر کوئی ڈھونڈے

نہ ظاہر ہو خبر اس کی نہ اس کا مبتدا نکلے


وہ میرے لاشے پر بولے نظر یوں پھیر کر مجھ سے

چلے حوروں سے تم ملنے نہایت بے وفا نکلے


ہمارا دل ہماری آنکھ دونوں ان کے مسکن ہیں

کبھی اس گھر میں جا دھمکے کبھی اس گھر میں آ نکلے


پڑا کس کشمکش میں یار کے گھر رات میں جا کر

نہ اٹھ کر مدعی جائے نہ میرا مدعا نکلے


تڑپتا ہوں بجھا دے پیاس میری آب خنجر سے

کہ میرے دل سے اے قاتل ترے حق میں دعا نکلے


دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے

عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے


رنجور عظیم آبادی


زہرا نگاہ

 یوم پیدائش 14 مئی 1937


نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا

رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا


تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت

اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا


اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے

اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا


تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب

لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا


رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا

جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا


چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا

پر بڑی بات پہ چپ رہنا بھی تمہی سے سیکھا


زہرا نگاہ


یاور حبیب ڈار

 دعا

تُو شاہِ جہاں خالقِ دو جہاں ہے

ترا بول بالا تُو کون و مکاں ہے


تری عظمتیں،رفعتیں،حاجتیں ہوں

گنہ در گُزر ہوں عطا رحمتیں ہوں


تُو شاہِ نشیں ہے تُو آقا ہے میرا

کروں دو جہاں بول بالا میں تیرا


ریاکار اور ہیں گنہ گار بندے

مگر ٹھہرے تیرے وفا دار بندے


کرم کی نظر ہو، دعا ہے ہماری

ہمیں پے عطا ہو کہ رحمت تمہاری


جگر چاک سینا کشادہ نہیں ہے

پلٹ جانے کا اب اِرادہ نہیں ہے


عطا رحمتوں، برکتوں کے جوازے

خدا اپنی رحمت سے سب کو نوازے


مصیبت ہیں تیرے یہ خوشیاں ہیں تیری

زمانے ہیں تیرے تو صدیاں ہیں تیری


یہ فریاد یاور کی سن لے خدایا

مجھے پاسِ الفت و رضا دے خدایا


یاور حبیب ڈار


خالد ندیم بدایونی

 اہلِ جہاں حریف ہمارے ہوئے تو کیا

ہم بھی ہیں آج وقت کے مارے ہوئے تو کیا


محراب و در کو پھر بھی اُجالے نہیں نصیب

آنگن میں میرے چاند ستارے ہوئے تو کیا


دل جب ہمارا خانۂ ویران ہو گیا

اُس وقت پورے خواب ہمارے ہوئے تو کیا


اب دید کی طلب ہے نہ ملنے کی آرزو

اُن کی طرف سے لاکھ اِشارے ہوئے تو کیا


پھولوں میں دِلکشی ہے نہ کلیوں پہ ہے نکھار

رنگین گلستاں کے نظارے ہوئے تو کیا


تابندگی نگاہ کی جب مر کے رہ گئ

اب آئیں وہ نقاب اُتارے ہوئے تو کیا


ہارا نہیں ہوں اب بھی محبّت کی جنگ میں

راہِ وفا میں مجھ کو خسارے ہوئے تو کیا


ساحل پہ لے کے جائے گا 'خالد' تمہارا عزم

دریا کے دور تم سے کنارے ہوئے تو کیا



خالد ندیم بدایونی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...