Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

جمال پانی پتی

 یوم پیدائش 15 جون 1927


وہ لہو روئی ہیں آنکھیں کہ بتانا مشکل

اب کوئی خواب ان آنکھوں میں سجانا مشکل


کتنی یادیں تھیں کہ گرد رہ ایام ہوئیں

کتنے چہروں کا ہوا دھیان میں لانا مشکل


کتنے شب خوں تھے اجالوں پہ جو مارے نہ گئے

کتنی شمعیں تھیں ہوا جن کا جلانا مشکل


کتنے دروازے دلوں کے تھے جو دیوار بنے

ایسی دیوار کہ در جس میں بنانا مشکل


رنگ جتنے تھے بہاروں میں بہاروں سے گئے

اس چمن زار میں اب جی کا لگانا مشکل


وہ بھی اے شہر نگاراں تھا کوئی موسم خواب

بیت جانے پہ بھی ہے جس کو بھلانا مشکل


رقص کرتے ہوئے کانٹوں پہ چلے ہم ورنہ

ہر قدم راہ میں تھا پھول کھلانا مشکل


یوں ہی چڑھتا رہا گر درد کا دریا تو جمالؔ

کشتیٔ جاں کو کنارے سے لگانا مشکل


جمال پانی پتی


ابن انشا

 یوم پیدائش 15 جون 1927


کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا 

کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا


ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے

ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا 


اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں 

ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا 


کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر 

جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا 


ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی 

احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا 


دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے 

الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا 


اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں 

ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا 


ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر 

رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا 


ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں 

اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا 


بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل

عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا


ابن انشا


اظہار اثر

 یوم پیدائش 15 جون 1927


ایک ہی شے تھی بہ انداز دگر مانگی تھی

میں نے بینائی نہیں تجھ سے نظر مانگی تھی


تو نے جھلسا دیا جلتا ہوا سورج دے کر

ہم نے جینے کے لیے ایک سحر مانگی تھی


ہم سفر کس کو کہیں شمس و قمر نے ہم سے

منہ پہ ملنے کے لیے گرد سفر مانگی تھی


کون آزر ہے جسے اپنا زیاں ہے مقصود

کس نے پتھر کے لیے روح بشر مانگی تھی


ایک لمحہ کوئی جی لے تو بڑی بات ہے یہ

اس لیے ہم نے اثرؔ عمر شرر مانگی تھی


اظہار اثر


خالد ندیم بدایونی

 اوراق زندگی کے ہوا میں اُچھال کر

کہہ دونگا آسمان سے رکھ لے سنبھال کر


دُنیائے بے ثبات کو حیرت میں ڈال کر

ایڑی سے ہم دکھاتے ہیں دَریا نکال کر


بچّوں نے رُخ ہواؤں کا پل میں سمجھ لیا

کاغذ کی ایک ناؤ سمندر میں ڈال کر


پروان کیا چڑھے کہ وہ آزاد ہو گئے

طائر جو میں نے رکھے تھے پنجرے میں پال کر


جِن کو تھا نا خُدائی کا دعویٰ نہ لا سکے

طغیانیوں کے بیچ سے کشتی نکال کر


وُسعت پہ جن کو فخر ہے گہرائیوں پہ ناز

دیکھے ہیں میں نے وہ بھی سمندر کھنگال کر


اُلفت کے اب مکان کی تعمیر تُم کرو

وہ جا چُکا ہے عشق کی بُنیاد ڈال کر


خالد ندیم بدایونی


عزیز حامد مدنی

 یوم پیدائش 15 جون 1922


فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے 

سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے


جو بت کدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال

حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے


اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم

اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے


غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں

ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے


گل و ثمر کا تو رونا الگ رہا لیکن

یہ غم کہ فرق حرام و حلال سے بھی گئے


وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے


ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا

کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے


چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا

کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے


عزیز حامد مدنی


نصیر ترابی

 یوم پیدائش 15 جون 1945


وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی


نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال

شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی


محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی


عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی


بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی


کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن

صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی


کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت

کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی


عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ 

وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی


نصیر ترابی


عباس تابش

 یوم پیدائش 15 جون 1961


یہ عجب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے

شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے


رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے

چاند دیوار پے رکھا ہوا سر لگتا ہے


ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا

دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے


جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا

اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے


مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا

تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے


وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا

اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے


اس زمانہ میں تو اتنا بھی غنیمت ہے میاں

کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے


اپنے شجرے کہ وہ تصدیق کرائے جا کر

جس کو زنجیر پہنتے ہوئے ڈر لگتا ہے 


ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے


عباس تابش


نسیم بیگم نسیم

 یوم پیدائش 08 جون 1961


بے وفائی میں دل ستانی میں 

کتنے قصے ہیں بے زبانی میں


کیا ملا ایسی راز دانی میں 

پوری دنیا ہے اب کہانی میں


آس الفت کی کررہے تھے صنم

غم ملے آپ کی نشانی میں


بس تری ہی گلی نظر آئی 

بن کے کردار اک کہانی میں


میرے جذبے سما نہیں پائے

آج الفاظ کی گرانی میں


جستجو،زخم اور حق تلفی

یہ ملا ہم کو زندگانی میں


میرا انجام بھی چھپا تھا نسیم 

میرے آغاز کی کہانی میں


 نسیم بیگم نسیم


اکرم نگینوی

 یوم پیدائش 14 جون 1956


ظالموں کے واسطے دستار ہے

حق پرستوں کو صلیب و دار ہے


پار دریا وہ کرے گا جس کے بھی

حوصلے کی ہاتھ میں پتوار ہے


زندہ اپنے آپ کو سمجھے وہی

پاس جس کے ایماں کی تلوار ہے


وہ لڑا دیتا ہے بھائی بھائی کو

دیکھئے کتنا بڑا فنکار ہے


کیا کیا ہے تم نے یہ سوچو زرا

کیوں وباؤں کی یہاں یلغار ہے


آج تو اتنا بتا اکرم مجھے

کوئی دنیا میں ترا غمخوار ہے


اکرم نگینوی


ظفر صہبائی

 یوم پیدائش 14 جون 1946


شب کے غم دن کے عذابوں سے الگ رکھتا ہوں

ساری تعبیروں کو خوابوں سے الگ رکھتا ہوں


جو پڑھا ہے اسے جینا ہی نہیں ہے ممکن

زندگی کو میں کتابوں سے الگ رکھتا ہوں


اس کی تقدیس پہ دھبہ نہیں لگنے دیتا

دامن دل کو حسابوں سے الگ رکھتا ہوں


یہ عمل ریت کو پانی نہیں بننے دیتا

پیاس کو اپنی سرابوں سے الگ رکھتا ہوں


اس کے در پر نہیں لکھتا میں حساب دنیا

دل کی مسجد کو خرابوں سے الگ رکھتا ہوں


ظفر صہبائی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...