Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

امر روحانی

 یوم پیدائش 17 جون


خود کو اوقات سے گراتی ہے

برق جب آشیاں جلاتی ہے


ہم مسافر ہیں ایسی منزل کے

دو جہانوں کو جو ملاتی ہے


لوگ مجذوب جانتے ہیں جسے

آگہی رازداں بناتی ہے


روشنی ، تیرگی بہ ظرفِ عطا

اک دکھاتی ہے، اک چھپاتی ہے


زرد پتوں کی رسمِ ماتم پر

بادِ صر سیٹیاں بجاتی ہے


لفظ تو پتلیوں کے جیسے ہیں

یہ زباں ڈوریاں ہلاتی ہے


عاشقی ہے مثالِ خود زدگی

آگ جلتی ہے پھر جلاتی ہے


تشنگی اور طلب الگ ہیں امـؔر

ایک مٹتی ہے اک مٹاتی ہے


امر رُوحانی


نظام ہاتف

 یوم پیدائش 16 جون 1949


کس نے قسمت میں مرے خانہ بدوشی لکھ دی

اب کے ہجرت کروں ایسی کہ مقامی ہو جاؤں


نظام ہاتف


شاعر علی راحل

 وہ مَلا رات خواب میں جیسے

 تیرتا عکس آب میں جیسے


دیکھ کر اُس کو دل ہُوا بےچین

وه بھی تها اضطراب میں جیسے


یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے

دُھن بجی ہَو رُباب میں جیسے


اِسطرح گھل گیا ہے وہ مجھ میں

گھلتی شکّر ہے آب میں جیسے


کھوج میں اُس کی دَربدر بهٹکے 

پیاس کوئی سَراب میں جیسے 


ذہن و دل پر وہ نقش ہے رَاحِلؔ

حَرف کوئی کتاب میں جیسے


شاعر علی رَاحِلؔ 


محمد عارف

 یہ تھکی تھکی سی مُسافتیں اِنہیں ہو سکے تو گُزار دے 

میری چارہ گر، میری ہمسفر، مجھے پِھر نویدِ بہار دے


مِری زندگی کے یہ سِلسِلےکہیں مَرقدوں سے تھےجا مِلے 

مَیں کبھی کا اِن میں اُتر گیامُجھےتُوبھی مُشتِ غُبار دے


یہ اندھیری رات یہ وحشتیں یہ شِکستہ چاپ یہ آہٹیں

تِری سِمت میرےقدم اُٹھیں مجھےحوصلے وہ اُدھار دے


کوئی کِس کے کِتنا قریب ہے یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے

مِری ہم نفس، مِرے پاس آ مِری زندگی کو سنوار دے


سَرِ راہ خود کو تو کھو دیا رگِ جاں میں درد سمو دیا

تِری حدسے پِھرنہ نِکل سکوں مجھےبازوؤں کےحصار دے


یہ جوقُربتوں میں ہیں فاصلےجومِلےبھی کوئی توکیامِلے 

تِری نذر کرتا ہُوں چاہتیں مجھے نفرتوں کے مَزار دے


محمد عارف


پیر محمد علی نعیمی

 نعت رسول صلی اللہ علیہ و 


کیا تذکرہ کروں میں نبی کی حیات کا

ذاکر ہے خود خدا مرے آقا کی ذات کا


ان کے طفیل رب نے بناکر یہ کائنات

مختار کردیا ہے انہیں کائنات کا


آقا کا یہ کرم بھی بڑا لا زوال ہے

ملتا رہے گا فیض سدا معجزات کا


نور نبی سے ملتی ہے عالم کو روشنی

صدقہ ہے یہ حضور کی ذات و صفات کا


فرمان مصطفی تو ہے ہر دور میں اٹل

کوئی بدل نہیں مرے آقا کی بات کا


آقا کی اس حدیث میں جینے کا ہے ہنر

خاموشی میں ہی رکھا ہے رستہ نجات کا


میرا جو نام ان کے غلاموں میں آگیا

احسان ہے علی پہ یہ آقا کی نعت کا


پیر محمد علی نعیمی


ضیاء رشیدی

 نفرتوں کا گرم اب بازار ہے 

الفتوں کی گررہی دیوار ہے


شکل و صورت سے نہیں کوئی غرض 

اصل تو انسان کا کردار ہے


ہے کرونا وائرس کیسی وبا 

یار سے ہی بھاگتا اب یار ہے


کیسے آئے نیند اب انسان کو 

ہرطرف لاشوں کا جب انبار ہے


ہر طرف مردوں پہ ماتم دیکھ کر 

خوف میں ڈوبا ہوا سنسار ہے


ہر کوئی اک دوسرے سے بھاگتا 

کون کس کا ا ب یہاں غم خوار ہے


موت کی خبروں کو سن کر اے ضیاء 

دل مرا بھی اب بہت بیزار ہے


ضیاء رشیدی


ظہور ظہیرآبادی

 زندگی میں نہ بچھڑیں گے تم سے کبھی

یہ جو کہتا تھا وہ بھی جدا ہو گیا


ظہور ظہیرآبادی


Tuesday, June 15, 2021

یشب تمنا

 یوم پیدائش 16 جون 1957


پھر بھی نہیں کہتا کہ وہ بہتر نہیں نکلے

باہر کئی منظر تھے جو اندر نہیں نکلے


تا عمر اب اندر ہی کہیں گرتے رہیں گے

رویا ہوں تو آنسو مرے باہر نہیں نکلے


پتھر کے زمانے سے نکل آئے ہیں لیکن

سوچوں سے ہماری ابھی پتھر نہیں نکلے


سر پھوڑتے رہتے ہیں سر شہر الم میں

لیکن سر دیوار جنوں در نہیں نکلے


اک بار یہ دل خانماں برباد ہوا تھا

لگتا ہے ابھی دل سے وہی ڈر نہیں نکلے


کیا ہے کہ اگر میں کوئی فرہاد نہ نکلا

تم بھی تو مقدر کے سکندر نہیں نکلے


دریائے محبت کا مجھے دعویٰ نہیں تھا

پر تم بھی محبت میں سمندر نہیں نکلے


یشب تمنا


شہر یار

 یوم پیدائش 16 جون 1936


دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے

پھر بھی اک شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے


رات کا وقت ہے سورج ہے مرا راہنما

دیر سے دور سے یہ کون بلاتا ہے مجھے


میری ان آنکھوں کو خوابوں سے پشیمانی ہے

نیند کے نام سے جو ہول سا آتا ہے مجھے


تیرا منکر نہیں اے وقت مگر دیکھنا ہے

بچھڑے لوگوں سے کہاں کیسے ملاتا ہے مجھے


قصۂ درد میں یہ بات کہاں سے آئی

میں بہت ہنستا ہوں جب کوئی سناتا ہے مجھے


شہریار


شاعر جمالی

 یوم پیدائش 15 جون 1943


مرے نصیب کا لکھا بدل بھی سکتا تھا

وہ چاہتا تو مرے ساتھ چل بھی سکتا تھا


یہ تو نے ٹھیک کیا اپنا ہاتھ کھینچ لیا

مرے لبوں سے ترا ہاتھ جل بھی سکتا تھا


اڑاتی رہتی ہے دنیا غلط سلط باتیں

وہ سنگ دل تھا تو اک دن پگھل بھی سکتا تھا


اتر گیا ترا غم روح کی فضاؤں میں

رگوں میں ہوتا تو آنکھوں سے ڈھل بھی سکتا تھا


میں ٹھیک وقت پہ خاموش ہو گیا ورنہ

مرے رفیقوں کا لہجہ بدل بھی سکتا تھا


انا کو دھوپ میں رہنا پسند تھا ورنہ

ترے غرور کا سورج تو ڈھل بھی سکتا تھا


رگڑ سکی نہ مری پیاس ایڑیاں ورنہ

ہر ایک ذرے سے چشمہ ابل بھی سکتا تھا


پسند آئی نہ ٹوٹی ہوئی فصیل کی راہ

میں شہر تن کی گھٹن سے نکل بھی سکتا تھا


وہ لمحہ جس نے مجھے ریزہ ریزہ کر ڈالا

کسی کے بس میں جو ہوتا تو ٹل بھی سکتا تھا


شاعر جمالی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...