Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

عمران حسین پاشا

 یوم پیدائش 22 جون 1977


اس کی یادوں میں جی لیاجائے

غم کی راتوں میں جی لیا جائے


خود کو کرکے سپرد ساجن کے

سرد راتوں میں جی لیا جائے


وصل تیرا اگر میسر ہو

حسیں لمحوں میں جی لیا جائے


خود کو کرکے فنا محبت میں

عشق راہوں میں جی لیا جائے


دل میں اب پال کر جدائی کا غم

ٹھنڈی آہوں میں جی لیا جائے


عمران حسین پاشا


وقار انبالوی

 یوم پیدائش 22 جون 1896


پوچھوں گا راہِ عشق میں کیوں راہ بر کو میں​

اتنا بھی کیا گراؤں گا ذوقِ نظر کو میں​

ہر ایک نقش پا پہ جھکاؤں گا سر کو میں​

سجدے کیا کروں گا تری رہگُذر کو میں​

اُمید و یاس لاکھ دوراہے پہ مجھ کو لائے​

میں جانتا ہوں خوب کہ جاؤں کدھر کو میں​

دردِ جگر کی ختم ہوئیں آزمائشیں​

اب آزماؤں گا تری ترچھی نظر کو میں​

ذوقِ طلب نے کر دیا آوارہء جنوں​

منزل پہ آکے بھول گیا اپنے گھر کو میں​

یوں جام ماہتاب سے ساقی پلا مجھے​

دیکھوں نہ آنکھ بھر کے طلسمِ سحر کو میں​


وقار انبالوی


جاذب قریشی

 انا الیہ وانا الیہ راجعون


یوم وفات 22 جون 2021

یوم پیدائش 03 آگسٹ 1940


اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے

اور وہ خود گلاب جیسا ہے 


دھوپ ہو چاندنی ہو بارش ہو

ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے 


بے ہنر شہرتوں کے جنگل میں

سنگ بھی آفتاب جیسا ہے 


بھول جاؤ گے خال و خد اپنے

آئنہ بھی سراب جیسا ہے 


وصل کے رنگ بھی بدلتے تھے

ہجر بھی انقلاب جیسا ہے 


یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ تھا

بھولنا بھی عذاب جیسا ہے 


بے ستارہ ہے آسماں تجھ بن

اور سمندر سراب جیسا ہے


جاذب قریشی


علی احمد جلیلی

 یوم پیدائش 22 جون 1921


غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں

زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں


بے چراغی یہ تری شام غریباں کب تک

چل تجھے جلتے مکانوں کا اجالا دے دوں


زندگی اب تو یہی شکل ہے سمجھوتے کی

دور ہٹ جاؤں تری راہ سے رستا دے دوں


تشنگی تجھ کو بجھانا مجھے منظور نہیں

ورنہ قطرہ کی ہے کیا بات میں دریا دے دوں


لی ہے انگڑائی تو پھر ہاتھ اٹھا کر رکھیے

ٹھہریے میں اسے لفظوں کا لبادہ دے دوں


اے مرے فن تجھے تکمیل کو پہنچانا ہے

آ تجھے خون کا میں آخری قطرہ دے دوں


سورج آ جائے کسی دن جو میرے ہاتھ علیؔ

گھونٹ دوں رات کا دم سب کو اجالا دے دوں


علی احمد جلیلی


آفتاب قابل

 وہ تھے جب تک تھیں گلستاں آنکھیں

وہ نہیں ہیں تو ہیں خزاں آنکھیں


کاش ہوتیں جو مہرباں آنکھیں

کیوں بھٹکتیں یہاں وہاں آنکھیں


جب سے بچھڑی وہ بدگماں آنکھیں

خون روتی ہیں ناگہاں آنکھیں


وہ تو کہیئے لگا لیا چشمہ

ورنہ کہہ دیتیں داستاں آنکھیں


ہوش میں رہیئے اب جناب دل

ہوگئی ہیں وہ اب جواں آنکھیں


دوستوں! ایک اجنبی کے طفیل

بن گئیں غم کی داستاں آنکھیں


ہر قدم تم سنبھال کر رکھنا

ہر قدم لیں گی امتحاں آنکھیں


تم کھلونا ہو میری ہستی کا

تم سے ہوں ، اور بدگماں آنکھیں


رہ گزار وفا پہ چلتے ہوئے

ہوگئیں گرد کارواں آنکھیں


ہو کوئی غم گسار تو پوچھے

کس لئے ہیں دھواں دھواں آنکھیں


اُٹھ گناہوں پہ گریہ زاری کر

اس سے پہلے ہو رائیگاں آنکھیں


جو زباں سے کبھی نہیں نکلا

کر گئیں راز وہ بیاں آنکھیں


اب نہیں حال زار پر میرے

تیری پہلی سی مہرباں آنکھیں


آنکھیں آنکھوں سے بات کرتی ہیں

ہیں دلوں کی بھی ہم زباں آنکھیں


وار کرتی ہیں دل پہ یہ قابل

چھوڑتی ہیں کہاں نشاں آنکھیں


آفتاب قابل


ارم زہرا

 ہم اس کے سامنے حسن و جمال کیا رکھتے

جو بے مثال ہے اس کی مثال کیا رکھتے


جو بے وفائی کو اپنا ہنر سمجھتا ہے

ہم اس کے آگے وفا کا سوال کیا رکھتے


ہمارا دل کسی جاگیر سے نہیں ارزاں

ہم اس کے سامنے مال و منال کیا رکھتے


اسے تو رشتے نبھانے کی آرزو ہی نہیں

پھر اس کی ایک نشانی سنبھال کیا رکھتے


جو دل پہ چوٹ لگانے میں خوب ماہر ہے

ہم اس کے سامنے اپنا کمال کیا رکھتے


ہمارے ظرف کا لوگوں نے امتحان لیا

ذرا سی بات کا دل میں ملال کیا رکھتے


جو اپنے دل سے ارمؔ کو نکال بیٹھا ہے

ہم اس کے سامنے ہجر و وصال کیا رکھتے


ارم زہرا


ادا جعفری

 ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی


وہی خانہ بدوش امیدیں

وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی


دل کے گنجان راستوں پہ کہیں

تیری آواز اور تو ہے ابھی


زندگی کی طرح خراج طلب

کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی


بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی


زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا

شاخ میں شدت نمو ہے ابھی


ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی


ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے

یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی


ادا جعفری


نسیم نازش

 اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے


جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم

وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے


یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں

جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے


پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں

دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے


شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو

وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے


اس کو کمتر نہ سمجھنا لوگو

وہ جسے خواہش دنیا نہیں ہے


ہم کو ہے قرب میسر کا نشہ

ہم کو اندیشۂ فردا نہیں ہے


یہ گزرتا ہوا اک سایۂ وقت

قاتل عمر ہے لمحہ نہیں ہے


تہہ میں رشتوں کی اتر کر دیکھو

کون اس دہر میں تنہا نہیں ہے


ہجر کا تجھ کو ہے شکوہ تو نے

معنیٔ عشق کو سمجھا نہیں ہے


گم ہوئے کتنے ہی بے نام شہید

جن کا تاریخ میں چرچا نہیں ہے


تو ہے بیگانہ تو کیا تجھ سے گلہ

کوئی دنیا میں کسی کا نہیں ہے


کر گئے خوف خزاں سے ہجرت

پیڑ پر کوئی پرندہ نہیں ہے


زیست میں ہم نے بچا کر کچھ وقت

کبھی اپنے لئے رکھا نہیں ہے


ہم ہیں اس عہد میں زندہ جس کا

جسم ہی جسم ہے چہرہ نہیں ہے


تم نہ ہو گے تو جئیں گے کیسے

ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے


کیسی محفل یہ سجی ہے نازشؔ

کوئی بھی میرا شناسا نہیں ہے


نسیم نازش


جعفر بلرامپوری

 تجربہ زندگی میں اک ایسا ہوا

مفلسی میں نہ کوئی بھی اپنا ہوا


رنج و غم حال دل اب سناؤں کسے

مطلبی دور ہے کون کس کا ہوا


کہہ رہے دل درختوں کے روکر یہی

جس کو سایہ دیا وہ نہ میرا ہوا


رشتے انمول ہیں پر حقیقت ہے یہ

ہر کسی کو یہاں پیارا پیسہ ہوا


زخ پہ پردہ نہیں ماسک لازم ہے اب

فیصلہ دیکھو جعفر یہ کیسا ہوا


جعفر بلرامپوری


شمشاد شاد

 شفقتوں کا کہاں دنیا میں رہا مول کہ اب

باپ سے بیٹا دعائیں نہیں دھن مانگے ہے

شمشاد شاؔد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...