Urdu Deccan

Tuesday, June 29, 2021

ثریا حیا

 یوم پیدائش 26 جون 1946


اےغم تو میرے ساتھ رہا کر قدم قدم

کچھ حسرتوں کی خاک اڑا کر قدم قدم


وہ دن بھی خوب تھے کہ سرِ وادیٔ جنوں

ہم آ گئے تھے خواب سجا کر قدم قدم 


وہ اور اس کی ذات سے منسوب رفعتیں

رکھتے رہے ہیں دل میں چھپا کرقدم قدم


اک آرزوئے دید تھی سو اب نہیں رہی

اس دل کو آئینہ سا بنا کر قدم قوم


وہ ہجر تھاکہ وصل تھا کچھ یاد ہی نہیں

سیراب ہو گئے جسے پا کر قدم قدم


طوفاں کا خوف ہونہ حیاؔ بجلیوں کا ڈر

یا رب مجھے وہ عشق عطا کر قدم قدم


ثریا حیا


عزیز نبیل

 یوم پیدائش 26 جون 1976


اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح

وہ سنہرا آدمی تھا ہو بہ ہو میری طرح


ایک برگ بے شجر اور اک صدائے بازگشت

دونوں آوارہ پھرے ہیں کو بہ کو میری طرح


چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن

صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح


لطف آوے گا بہت اے ساکنان قصر ناز 

بے در و دیوار بھی رہیو کبھو میری طرح


دیکھنا پھر لذت کیفیت تشنہ لبی

توڑ دے پہلے سبھی جام و سبو میری طرح


اک پیادہ سر کرے گا سارا میدان جدل

شرط ہے جوش جنوں اور جستجو میری طرح


عزیز نبیل


عالم فیضی

 دل میں گھس کر بیان لیتا ہے

بات مطلب کی جان لیتا ہے


منزلیں اس کو مل ہی جاتی ہیں

کچھ، جو کرنے کی ٹھان لیتا ہے


یوں بہت کچھ ہے اس کے پاس مگر 

پھر بھی دیکھو وہ دان لیتا ہے


چل گئی کیسی اب ہوا لوگو!

بھائی بھائی کی جان لیتا ہے


چھوڑ دیتے ہیں ساتھ سب عالم

وقت جب امتحان لیتا ہے


عالم فیضی


اویس ساقی

 یوم پیدائش 26 جون 1989


زندگی کامیاب تنکوں پر 

بہہ رہی مثلِ آب تنکوں پر


وہ دباتے ہیں آس محلوں میں 

میں سجاتا ہوں خواب تنکوں پر


دیکھ لیجے ناں میری عیاشی 

سو رہا ہوں جناب تنکوں پر


خاکساری ہے شیوہءِ مومن

کیوں بشر ہو خراب تنکوں پر


شاہ ہو کر اڑان کا پھر بھی

گھر بنائے عقاب تنکوں پر


تختِ شاہاں گھرے ہیں ظلمت میں

روشنی کا شباب تنکوں پر


ہر کسی نے یوں داد دی مجھ کو

ہے غزل لاجواب تنکوں پر


آشیاں دیکھ جل رہا ہے مرا

ہے مسلط عذاب تنکوں پر


بخش دے زندگی نئی ان کو

ڈال ساقی شراب تنکوں پر


اویس ساقی


شاکر حسین اصلاحی

 یوم پیدائش 25 جون 1979


ان کی یادوں کے شجر باقی ہیں

لمس و لذت کے ثمر باقی ہیں

 

کچھ کو سیلاب بلاِ روند گیا

پھر بھی کچھ گاؤں میں گھر باقی ہیں


 روشنی حسن کی رہ جائے گی 

جب تلک اہلِ ہنر باقی ہیں


اب یقیں ہوتا نہیں سایوں کا

یوں تو راہوں میں شجر باقی ہیں


غم کے سائل کی صدا کہتی ہے

خشک آنکھوں کے کھنڈر باقی ہیں


آنکھیں خوں بار ہیں اپنی شاکر

اب کہاں لعل و گہر باقی ہیں


شاکر حسین اصلاحی


م لیئق انصاری

 یوم پیدائش 25 جون


تیرے جذبات مرے دل کا وسیلہ ٹھہرے

اشک پلکوں پہ تری جیسے ستارہ ٹھہرے


زندگی تجھ سے نہیں کوئی بھی شکوہ لیکن

کیسے ماتھے پہ ترے ہجر کا مارا ٹھہرے


شدت کرب کی شورش ہے سمندر میں مگر

زخم یادوں کے تری آج کنارہ ٹھہرے


تیرا پیکر جو تراشا ہے غزل میں ، میں نے

کاش وہ دل کا ترے کوئی شمارہ ٹھہرے


منکشف ہوتے نہیں راز لبوں پر تیرے

تیرے اشعار مرے دل کا سہارا ٹھہرے


چاندنی رات جو تصویر بناتی ہے تری

میری آنکھوں میں وہ رنگین نظارہ ٹھہرے


آگ میں دل میں محبت کی لگا دوں گا ترے

تیری آنکھوں میں جو الفت کا شرارہ ٹھہرے


پانیوں پر جو بنائے تھے گھروندے میں نے

وہ بھی صحرا میں نہ طوفاں کا اشارہ ٹھہرے


وہ میرے دل میں مکیں آج ہوئے ہیں ایسے

جیسے دل میں کوئی احساسِ شکستہ ٹھہرے


آ بسا ہے وہ لئیق آج لبوں پر میرے

جیسے بن کر وہ غزل پھول کا لہجہ ٹھہرے


 م


۔لئیق انصاری

Thursday, June 24, 2021

نعیم ضرار

 وقت پر عشق زلیخا کا اثر لگتا ہے 

آخر عمر بھی آغاز سفر لگتا ہے 


یہ سمندر ہے مگر سوختہ جاں شاعر کو 

کسی مجبور کا اک دیدۂ تر لگتا ہے 


صبح تازہ ہے مقدر دل مایوس ٹھہر 

شجر امید پہ انعام ثمر لگتا ہے 


میں زباں بندی کا یہ عہد نہیں توڑوں گا 

ہاں مگر اس دل گستاخ سے ڈر لگتا ہے 


ہمیں ادراک محبت تو نہیں ہے لیکن 

اتنا معلوم ہے اس کھیل میں سر لگتا ہے


 نعیم ضرار


شاعر علی راحل

 وہ مَلا رات خواب میں جیسے

 تیرتا عکس آب میں جیسے

 

دیکھ کر اُس کو دل ہُوا بےچین

وه بھی تها اضطراب میں جیسے


یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے

دُھن بجی ہَو رُباب میں جیسے


اِسطرح گھل گیا ہے وہ مجھ میں

گھلتی شکّر ہے آب میں جیسے


کھوج میں اُس کی دَربدر بهٹکے 

پیاس کوئی سَراب میں جیسے 


اِسطرح اُس کے پیار میں ڈوبے 

سوہنی ڈوبی چناب میں جیسے


ذہن و دل پر وہ نقش ہے رَاحِلؔ

حَرف کوئی کتاب میں جیسے


شاعر علی رَاحِلؔ


اظہرکورٹلوی

 ہم رہیں گے جنّت میں 

خوب شان و شوکت میں 


 وہ کہاں جو دولت میں 

 ہے مزہ عبادت میں 

 

مقتدی نبی سارے 

آپﷺ کی اِمامت میں 


مال و زر لٹا کچھ تو 

دین کی محبّت میں 


اپنے رشتہ داروں کی 

لے خبر تو فرصت میں 


بھولئے نہیں رب کو 

غم میں اور مسرّت میں 


ذکرِ رب ہی اے لوگو!

ہے سکون وحشت میں 


امن بھی تھا اور انصاف 

" آپ تھے حکومت میں "


علم ہی میاں اظہرؔ 

نور ہے جو ظلمت میں


 میں نے یہ غزل اظہرؔ 

 ہے رقم کی عجلت میں 

 

 اظہؔرکورٹلوی


ندیم اعجاز

 دل یوں سحر کے واسطے مت بے قرار کر

ظلمت کی شب گزرنے کو ہے اعتبار کر


سودا ہے سر پہ کیسے میں روکوں زبان کو

جو جی میں آئے وہ ہی روش اختیار کر


قاتل کو میری لاش پہ جو چارہ گر کہے

اُس کو بھی میرے قتل میں شامل شمار کر


محشر تو کر چکے ہیں بپا اہلِ اقتدار

تو بیٹھ کے فلک پہ یونہی انتظار کر


دھرتی کی الفتوں میں کروں اور کیا بتا

دے تو رہا ہوں جان میں صدقے میں وار کر


مت خوف کھا ندیم تُو جابر کے جبر سے

کر جبر پر مزاحمت اور بار بار کر


ندیم اعجاز


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...