یوم پیدائش 26 جون 1980
مرے گیتوں سے رونے کی صدا آتی رہی پیہم
مرے زخموں کو سہلانے صبا آتی رہی پیہم
ہمیں اپنے گناہوں کی سزا ملتی رہی پیہم
ہمیں بیدار کرنے کو ہوا آتی رہی پیہم
کوئی قاسم ، کوئی خالد ، کوئی طارق نہیں ہم میں
خود اپنے آپ پر ہم کو حیا آتی رہی پیہم
تسلط غیر کا قصہ یہ سن کر ساری دنیا میں
مرے اشکوں کی آہوں کی صدا آتی رہی پیہم
گلے کٹتے رہے نیزے پہ سر چڑھتے رہے لیکن
زبانوں سے صداۓ لا اللہ آتی رہی پیہم
سیاست ہو رہی ہے آج کل بچوں کی لاشوں پر
ہمارے ساتھ ان کی بد دعا آتی رہی پیہم
مری چیخیں مرے اندر ہی گھٹ کے مر گئیں آخر
مجھے ہی لوٹ کر میری صدا آتی رہی پیم
غزل میں ڈھل گیا شہراد کا دکھ آج پھر یارو
مکاں سے اس کے غزلوں کی صدا آتی رہی پیم
آصف شہزاد