Urdu Deccan

Monday, July 26, 2021

معراج نقوی

 یوم پیدائش 20 جولائی


مرے سخن میں ترا ذکر گر نہیں ہوگا

مرا کہا ہوا کچھ معتبر نہیں ہوگا


میں چاہتا ہوں کہ تو مجھکو بے وفا سمجھے

مرا یہ چاہا ہوا بھی مگر نہیں ہوگا


تجھے بھی مجھ سے بچھڑنے کا رنج ہوگا مگر

کہ جس قدر ہے مجھے اس قدر نہیں ہوگا


مجھے پلایا ہے وہ زہر زندگی نے کہ اب

کسی بھی زہر کا مجھ پر اثر نہیں ہوگا


تو کیوں نہ آج ملاقات اس سے کی جائے

کہ آج سنڈے ہے وہ کام پر نہیں ہوگا


یہ راہ عشق ہے اس راہ میں کہیں پر بھی

کوئی بھی سایہ کوئی بھی شجر نہیں ہوگا


یہ جرم عشق تھا عجلت کا فیصلہ یعنی

خطا معاف یہ بار دگر نہیں ہوگا


معراج نقوی


ابراہیم اشکؔ

 یوم پیدائش 20 جولائی 1951


دیکھا تو کوئی اور تھا سوچا تو کوئی اور

جب آ کے ملا اور تھا چاہا تو کوئی اور


اس شخص کے چہرے میں کئی رنگ چھپے تھے

چپ تھا تو کوئی اور تھا بولا تو کوئی اور


دو چار قدم پر ہی بدلتے ہوئے دیکھا

ٹھہرا تو کوئی اور تھا گزرا تو کوئی اور


تم جان کے بھی اس کو نہ پہچان سکو گے

انجانے میں وہ اور ہے جانا تو کوئی اور


الجھن میں ہوں کھو دوں کہ اسے پا لوں کروں کیا

کھونے پہ وہ کچھ اور ہے پایا تو کوئی اور


دشمن بھی ہے ہم راز بھی انجان بھی ہے وہ

کیا اشکؔ نے سمجھا اسے وہ تھا تو کوئی اور


ابراہیم اشکؔ


ناہید ورک

 ایک نے منزل سمجھی اپنی، ایک نے رستہ سمجھا تھا

دونوں نے ہی اک دوجے کو، اپنے جیسا سمجھا تھا


عشق نے تیری عقل پہ کتنے گہرے پردے ڈال دیے

اے دل میرے میں نے تجھ کو اچھا خاصہ سمجھا تھا


وہ تھا دنیا داری والا، عشق وفا سے اُس کو کیا

تیری غلطی تُو نے اُس کو بات کا پکا سمجھا تھا


میں نے پورے سچّے دل سے، اُس کے ہاتھ پہ بَیعَت کی 

روح کی ہر اک رگ سے اُس کو، عشق صحیفہ سمجھا تھا


گرد میں لپٹی اک مٹیالے سائے کی وہ صورت تھی

لیکن میں نے سات ستاروں والا جُھمکا سمجھا تھا


کتنی گہری چُپ تھی لیکن، دیکھ کے اس کو بول پڑی

یہ ہے دل کا اندھا جس کو، میں نے زندہ سمجھا تھا


تیرا پتھر کا ہو جانا اب تو واجب ہے ناہید

پتھر ہی کو تُو نے اپنا، دین اور دنیا سمجھا تھا


ناہید وِرک


Monday, July 19, 2021

خلیل حیرت

 یوم پیدائش 19 جولائی 1951


وہ جو دولت پہ مرنے والے ہیں

وہ کہاں اب سدھرنے والے ہیں


ڈوبنا ہی نصیب ہے جن کا

ڈوب کر کب ابھرنے والے ہیں


ساری دنیا سے وہ نہیں ڈرتے 

آخرت سے جو ڈرنے والے ہیں


بس یقیں اور جذب ایماں سے

اپنے رستے سنورنے والے ہیں


ان کے حالات جب برے ہوں تو

تنکے تنکے بکھرنے والے ہیں


جن کے ایمان میں ہے تابانی

راہ حق سے گزرنے والے ہیں


ہے جنوں جن کو عشق کرنے کا

رات بھر آہ بھرنے والے ہیں


عقل آئی ضمیر جاگا ہے

حد سے حیرت گزرنے والے ہیں


خلیل حیرت


قیصر خالد

 یوم پیدائش 19 جولائی 1971


ہم زمیں کا آتشیں ابھار دیکھتے رہے

سہمے سہمے سے ہی بس غبار دیکھتے رہے


شہرتیں، یہ دولتیں، یہ مسندیں، ملیں پہ ہم

بے نیاز ہی رہے، ہزار دیکھتے رہے


آخرش زمانہ ان کو چھوڑ آگے بڑھ گیا

ہر قدم جو عزت و وقار دیکھتے رہے


ان کو پھر اماں کہاں نصیب ہونی تھی، کہ جو

ہر مقام سے رہ فرار دیکھتے رہے


ایک ایک کر کے قتل ہو رہی تھی پھر بھی ہم

اپنی خواہشوں کی اک قطار دیکھتے رہے


ہے محافظ چمن کا مجرمانہ طور یہ

نچ گئی کلی کلی پہ خار دیکھتے رہے


سب سیاہ تھا کہیں نہ سب سفید، پھر بھی ہم

لیل دیکھتے رہے، نہار دیکھتے رہے


باہر اپنے خول سے نہ آ سکے تمام عمر

ہم درون ذات خلفشار دیکھتے رہے


حوصلہ نہ کاوشیں، عمل نہ ربط آسماں

ہم کہ حسرتوں کا اک مزار دیکھتے رہے


آفتاب و کہکشاں، یہ چاند، تارے دور سے

روشنی کا بالیقیں مدار دیکھتے رہے


اب گلہ ہے کیوں مدد کا آسماں سے، جب کہ ہم

کایر ایسے تھے کہ خود پہ وار دیکھتے رہے


تیرے بن حیات کی سوچ بھی گناہ تھی

ہم قریب جاں ترا حصار دیکھتے رہے


دوسروں کے حق کی وہ لڑائی لڑ سکیں گے کیا

وہ جو اپنے آپ کو بھی خوار دیکھتے رہے


خالدؔ ایسے بھی تو ہیں کنارے بیٹھ کر ہی جو

بحر میں چڑھاؤ اور اتار دیکھتے رہے


قیصر خالد


بیکل اتساہی

 یوم پیدائش 19 جولائی 1930


اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے

ہر ایک پھول کے لب پر مرا لہو رکھ دے


زبان گل سے چٹانیں تراشنے والے

نگار و نقش میں آسائش نمو رکھ دے


سنا ہے اہل خرد پھر چمن سجائیں گے

جنوں بھی جیب و گریباں پئے رفو رکھ دے


شفق ہے پھول ہے دیپک ہے چاند بھی ہے مگر

انہیں کے ساتھ کہیں ساغر و سبو رکھ دے


چلا ہے جانب مے خانہ آج پھر واعظ

کہیں نہ جام پہ لب اپنے بے وضو رکھ دے


تمام شہر کو اپنی طرف جھکا لوں گا

غم حبیب مرے سر پہ ہاتھ تو رکھ دے


گراں لگے ہے جو احسان دست قاتل کا

اٹھ اور تیغ کے لب پر رگ گلو رکھ دے


خدا کرے مرا منصف سزا سنانے پر

مرا ہی سر مرے قاتل کے روبرو رکھ دے


سمندروں نے بلایا ہے تجھ کو اے بیکلؔ

تو اپنی پیاس کی صحرا میں آبرو رکھ دے


بیکل اتساہی


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 ہوگیا آزاد کا شرمندۂ تعیر خواب

”مانو“ کی تاسیس ہے اک کارنامہ لاجواب


اس کا نصب العین ہے اردو کو حاصل ہو فروغ

ہورہے ہیں اس سے ابنائے وطن اب فیضیاب


اس کے ذریں کارنامے شہرۂ آفاق ہیں 

ہے نہایت کار آمد اس کا تعلیمی نصاب


اردو کی تاریخ میں روشن رہے گا اس کا نام

ہورہا ہے اس سے برپا ایک ذہنی انقلاب


ہے یہ دانشگاہ اک شمعِ فروزاں علم کی

ہیں تراجم اس کے اردو میں نہایت کامیاب


سب کا منظور نظر ہے اس کا تعلیمی نظام

اس کے تعلیمی مراکز علم ودانش کا ہیں باب


علم و دانش کے ہراک شعبے میں ہیں اس کی کتب

تشنگان علم و فن ہوتے رہیں گے فیضیاب


ہے یہ اردو کی اشاعت کے لئے اک فال نیک

کرتی ہے یہ مستقل اپنے عمل کا احتساب


لایقِ تحسیں ہے برقیؔ اس کی علمی پیشرفت

ہے یہ دانشگاہ اقصائے جہاں میں انتخاب


احمد علی برقیؔ اعظمی 


شازیہ نیازی

 وحشت جب التجاؤں کے حصے میں آگئی

زاری پھٹی رداؤں کے حصے میں آگئی


اک شہر تیرے نام سے منسوب ہوگیا

تہذیب میرے گاؤں کے حصے میں آگئی


ایڑی رگڑ کے ہار گئے آج کے عوام

اور جیت رہمناؤں کے حصے میں آگئی


عشق و وفا کی راہ تباہی شعار ہے

میں کس طرح بلاؤں کے حصے میں آگئی


ناداں سپاہی جنگ میں دل ہار کر گیا

تلوار میرے پاؤں کے حصے میں آگئی


اک بیج کی، شکم میں جو بنیاد پڑگئی

دولت وفا کی ، ماؤں کے حصے میں آگئی


شازیہ نیازی


فنا نظامی کانپوری

 یوم پیدائش 18 جولائی 1922


دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا

گھر کو لگا کے آگ یہ مہمان جائے گا


سب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں

مجھ کو مرے سکوت سے پہچان جائے گا


اس کفر عشق سے مجھے کیوں روکتے ہو تم

ایمان والو میرا ہی ایمان جائے گا


آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا


اب اس مقام پر ہیں مری بے قراریاں

سمجھانے والا ہو کے پشیمان جائے گا


دنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن 

انسان کی تلاش میں انسان جائے گا 


فنا نظامی کانپوری


گھر ہوا، گلشن ہوا، صحرا ہوا

ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا


غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا


میں تو پہنچا ٹھوکریں کھاتا ہوا

منزلوں پر خضر کا چرچا ہوا


حُسن کا چہرہ بھی ہے اُترا ہوا

آج اپنے غم کا اندازہ ہوا


غم سے نازک ضبطِ غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا


پرسش غم آپ رہنے دیجئے

یہ تماشا ہے مرا دیکھا ہوا


یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے

اس جگہ اک میکدہ تھا کیا ہوا


رہتا ہے مےخانے ہی کے آس پاس

شیخ بھی ہے آدمی پہنچا ہوا​


اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں

اے فنا رہزن کو بھی صدمہ ہوا


 فنا نظامی کانپوری


منیب الرحمن

 یوم پیدائش 18 جولائی 1924


پیڑوں سے دھوپ پچھلے پہر کی پھسل گئی

سورج کو رخصتی کا افق سے پیام ہے


پھیلا ہوا ہے کمرے میں احساس بے حسی

خاموشیوں سے بے سخنی ہم کلام ہے


آہٹ ہو قفل کھلنے کی دروازہ باز ہو

آنکھوں کو اب یقیں ہے یہ امید خام ہے


یہ عمر سست گام گزرتی ہے اس طرح

ہر آن دل کو وقت شماری سے کام ہے


رہتی ہے صرف اس سے تصور میں گفتگو

آرام گاہ روح میں جس کا مقام ہے


وہ ہم سفر جو چھوڑ کے آگے چلے گئے

اے موجۂ ہوا انہیں میرا سلام ہے


ہر اک کو ناگزیر ہوئی دعوت فنا

ٹھہراؤ ہے سحر کو نہ شب کو دوام ہے


ہیں ان کہے بہت سے سخن ہائے گفتنی 

افسانۂ حیات سدا ناتمام ہے


دن جا رہا ہے جیسے جدا ہو رہے ہیں دوست

کیسی بجھی بجھی سی یہ گرمی کی شام ہے


منیب الرحمن


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...