Urdu Deccan

Tuesday, July 27, 2021

رضوان عارب لغاری

 تجھے میں خوابوں میں دیکھتا ہوں

کئی حجابوں میں دیکھتا ہوں


ہے رنگ دل اور لہو کا میرے

جو میں گلابوں میں دیکھتا ہوں


  مجھے جو تنہائی دے گیا ہے

اُسے عذابوں میں دیکھتا ہوں


منافقوں کے ہیں رنگ جتنے

وہ سب خطابوں میں دیکھتا ہوں


بہت پرندے ہیں چست لیکن 

ہنر عقابوں میں دیکھتا ہوں


جو دسترس میں نہیں ہے عارب

وہ اپنے خوابوں میں دیکھتا ہوں


رضوان عارب لغاری


امیتا پرسورام میتا

 زندگی اپنا سفر طے تو کرے گی لیکن

ہم سفر آپ جو ہوتے تو مزا اور ہی تھا


کعبہ و دیر میں اب ڈھونڈ رہی ہے دنیا

جو دل و جان میں بستا تھا خدا اور ہی تھا


اب یہ عالم ہے کہ دولت کا نشہ طاری ہے

جو کبھی عشق نے بخشا تھا نشہ اور ہی تھا


دور سے یوں ہی لگا تھا کہ بہت دوری ہے

جب قریب آئے تو جانا کہ گلا اور ہی تھا


میرے دل نے تو تجھے اور ہی دستک دی تھی

تو نے اے جان جو سمجھا جو سنا اور ہی تھا


امیتا پرسو رام میتا


اقبال شاہ

 یوم پیدائش 21 مارچ 1957


پرفتن جو شباب ہوتے ہیں

ناگہانی عذاب ہوتے ہیں


جن میں ٹوٹیں محبتوں کے گھڑے

وہ ستم گر چناب ہوتے ہیں


جو بھی سجتے ہیں تیرے جوڑے میں

وہ حسیں تر گلاب ہوتے ہیں 


بن ترے یہ رواں دواں دریا

درحقیت سراب ہوتے ہیں


تیرے پہلو میں بیٹھنے والے

لوگ عالی جناب ہوتے ہیں


اقبال شاہ


شازیہ نیازی

 یوم پیدائش 23 جولائی


بس ایک بار کہا نا نہیں بنا سکتی

میں روز روز بہانا نہیں بنا سکتی 


ترا خیال مری روٹیاں جلاتا ہے

میں اطمنان سے کھانا نہیں بنا سکتی


ضرور وہ کسی آسیب کی گرفت میں ہے

میں اس قدر تو دِوانہ نہیں بنا سکتی


سبھی کی تنگ خیالی نے گھر کو بانٹ دیا

اکیلی سوچ گھرانا نہیں بنا سکتی  


نئے نئے سے یہ انداز چبھ رہے ہیں مگر

میں تم کو پھر سے پرانا نہیں بنا سکتی 


شازیہ نیازی


نادیہ عنبر لودھی

 یوم پیدائش 23 جولائی


وہ گھر تنکوں سے بنوایا گیا ہے

وہاں ہر خواب دفنایا گیا ہے


مری الفت کو کیا سمجھے گا کوئی

سبق نفرت کا دہرایا گیا ہے


مرے اندر کا چہرہ مختلف ہے

بدن پہ اور کچھ پایا گیا ہے


ہوئی ہے زندگی افتاد ایسے

ہوس میں ہر مزا پایا گیا ہے


کہی ایسی ہے عنبرؔ اس کی ہر بات

شکستہ دل کو تڑپایا گیا ہے


نادیہ عنبر لودھی


Monday, July 26, 2021

راجیش ریڈی

 یوم پیدائش 22جولائی 1952


کچھ دن سے یہ جو رہتے ہو خود میں ہی میاں گم

بتلاؤ تو کر آئے ہو اپنے کو کہاں گم 


ساحل پہ بناتے رہے ہم روز گھر وندے

روز آکے انہیں کرتی رہی موجِ رواں گم


اب کیا کہیں کیا حال کِیا ایک جھلک نے

ہم جی بھی لئے، ہو بھی گئی جسم سے جاں گم


ان شوخ نگاہوں میں تھا جادو ہی کچھ ایسا

دو آنکھوں میں اپنے تو ہوئے دونوں جہاں گم


کس کام کا، گردن پہ جو ہو کر بھی نہ ہو سر

 کس کام کی، جو ہو کے بھی منھ میں ہو زباں گم


یہ زندگی حیرت بھرے صحرا کا سفر ہے

ظاہر ہیں جہاں آبلے ,قدموں کےنشاں گم


راجیش ریڈی


سید ریاض رحیم

 یوم پیدائش 21 جولائی 1959


مکاں سے لا مکاں ہوتے ہوئے بھی

کہاں ہم ہیں کہاں ہوتے ہوئے بھی


بہت کچھ اب بھی باقی ہے زمیں پر

بہت کچھ رائیگاں ہوتے ہوئے بھی


سرے سے ہم ہی غائب ہو گئے ہیں

سبھی کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی


بھنور کی سمت بڑھتی جا رہی ہے

یہ کشتی بادباں ہوتے ہوئے


بہت ہی مختصر ہوتے گئے ہیں

مکمل داستاں ہوتے ہوئے بھی


بہت گھاٹے میں ہے اردو زباں کیوں

محبت کی زباں ہوتے ہوئے بھی


سید ریاض رحیم


شانتی سروپ بھٹناگر

 یوم پیدائش 21 جولائی 1894

عزم

تیغ سے ڈر اور نہ گھبرا شورشِ زنجیر سے

مشکلوں سے لڑ بغاوت کر غمِ تقدیر سے


گر ہتھیلی پر نہیں مقسوم کی سطریں تو کیا

کھود قسمت کی لکیریں ناخنِ تدبیر سے


اپنے رہبر کو ہکن بننے پر آمادہ تو ہوں

ملک خود ہو جائیگا شاداب جوئے شیر سے


میری چپ سے کاش وہ سمجھیں کہ میں زندہ نہیں

اور میں آزاد ہو جاؤں ہر اک زنجیر سے


وقت شکووں میں گنوانا شانِ مردانہ نہیں

یا لہو کے گھونٹ پی یا کام لے شمشیر سے


شانتی سروپ بھٹناگر


راحت زاہد

 یوم پیدائش 21 جولائی 


رہِ حیات کے رنج و الم مجھے دے دو

تم اپنی روح کے سب سوز و غم مجھے دے دو 


میں بن کے پیار کا ساگر سمیٹ لوں گی انہیں

جو آنسوئوں سے ہو 'پر چشمِ نم مجھے دے دو 


'دکھوں کو آؤ ذرا بانٹنے کی بات کریں 

تمھاری جاں پہ جو گزرے ستم مجھے دے دو 


جو ہاتھ تھام کے منزل قریب ہوجائے

وہ ہاتھ تم کو ہے میری قسم مجھے دے دو 


مٹا کے خود کو میں راحت تمھاری ہو جاؤں 

وفا کا بس یہی اتنا بھرم مجھے دے دو 


راحت زاہد


فوزیہ شیخ

 یوم پیدائش 15 جولائی 1982


پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے

وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے


چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا

غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے


میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی

وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے


کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر

ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار تار مجھے


مٹا دے مجھ کو یا رکھ لے سمیٹ کر دل میں

تو ہجر جیسی اذیت سے مت گزار مجھے


تو جانتا ہے کہ میں بے گھری سے ڈرتی ہوں

نکال دل سے نہ ایسے تو بار بار مجھے


میں انتظار کے برزخ میں جلتی رہتی ہوں

ہزار وسوسے رکھتے ہیں بے قرار مجھے


میں چاہتی ہوں اسے بھولنا مگر فوزیؔ

قسم خدا کی نہیں خود پہ اختیار مجھے


فوزیہ شیخ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...