Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

نہال سیوہاروی

 یوم پیدائش 27 اگست 1909


اک شخص جواں خاک بسر یاد تو ہوگا

وہ اپنی نگاہوں کا اثر یاد تو ہوگا


وہ دھوم زمانے میں مرے جوش جنوں کی

وہ غلغلۂ شام و سحر یاد تو ہوگا


بھولے تو نہ ہو گے وہ تجلی کی حکایت

وہ تذکرۂ داغ جگر یاد تو ہوگا


ہر گام پہ وہ حسن کی پر ہوش نگاہیں

وہ عشق کا بد مست سفر یاد تو ہوگا


ہر لمحہ وہ دنیائے محبت میں تغیر

ہر سانس میں وہ رنگ دگر یاد تو ہوگا


وہ دل کو ترے حسن خود آرا سے تعلق

وہ خاک سے پیمان نظر یاد تو ہوگا


وہ کارگہ دہر سے اک بے خبری سی

وہ طعنۂ ہر اہل خبر یاد تو ہوگا


وہ دید کہ تھا روکش آرائش گیتی

پہروں طرف راہگزر یاد تو ہوگا


وہ عشق کے جذبات کا بھرپور تلاطم

طوفان کی موجوں میں گزر یاد تو ہوگا


گم کردہ سکوں پا کے مجھے اپنی گلی میں

کہنا وہ تجاہل سے کدھر یاد تو ہوگا


بھولی تو نہ ہوگی مری الفت کی حقیقت

مدت کا فسانہ ہے مگر یاد تو ہوگا


نہال سیوہاروی


قابل اجمیری

 یوم پیدائش 27 اگست 1931


تم نہ مانو مگر حقیقت ہے

عشق انسان کی ضرورت ہے


جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ

زندگی کو مری ضرورت ہے


حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے

صرف احساس کی ضرورت ہے


اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا

اب در و بام سے ندامت ہے


اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو

زندگی کتنی خوبصورت ہے 


راستہ کٹ ہی جائے گا قابلؔ

شوق منزل اگر سلامت ہے


قابل اجمیری


احمد علی برقی اعظمی

 عہد حاضر کے ممتاز صحافی عبدالقادر شمس مرحوم کے احوال و آثار پر مشتمل کتاب " وہ جو شمس تھا سر آسماں " مرتبہ ڈاکٹر نعمان قیصر اور محمد اسلام خان کے تناظر میں منظوم اظہار خیال


وہ جو شمس تھا سر آسماں

جو تمام عمر تھا ضوفشاں


وہ غروب ہوگیا اس طرح

نہ کسی کو جس کا رہا گماں


اسے ڈھونڈھتی ہے وہ ہر طرف

تھی جلو میں اس کے جو کہکشاں


وہ ہیں اس کے ہجر میں غمزدہ

گیاناگہاں جو سوٸے جناں


جنھیں اپنی جاں سے عزیز تھا

نہیں آج ان کے وہ درمیاں


تھا صحافی ایسا وہ معتبر

جو مشن میں اپنے تھا کامراں


وہی لکھتا تھا جو درست تھا

نہ ملاتا تھا کبھی ہاں میں ہاں


نہ کسی کے ہاتھ وہ آٸے گا

اسے ڈھونڈھے جا کے کوٸی کہاں


ہے زباں پہ غنچہ و گل کی یہ

وہ تھا باغ عدل کا باغباں


اے بھول جاٸیں وہ کس طرح

وہ سروں کا جن کے تھا ساٸباں


کبھی لوٹ کر جو نہ آٸے گا

یہ کتاب اسی کی ہے داستاں


احمد علی برقی اعظمی


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : یوم وصال آج ہے احمد فرازؔ کا

یوم وفات : ۲۵ اگست۲۰۰۸


یومِ وصال آج ہے احمد فرازؔ کا

جن کے ہے معترف یہ جہاں امتیاز کا


سن دوہزار آٹھ سے وہ ہم سے دور ہیں

جن کا سخن مرقع تھا سوز و گداز کا


ہے گیسوئے عروسِ ادب آج خم بہ خم

جس کو ہے انتظار کسی کارساز کا


اردو غزل کی عہدِ رواں میں تھے آبرو

دھوکہ سخن پہ ہوتا تھا جن کے مجازؔ کا


رونق نہیں ہے محفل ناز و نیاز میں

محمود منتظر ہے کسی پھر ایاز کا


مہدی حسن تھے جس پہ ہمیشہ غزل سرا

اب پیرہن دریدہ ہے پردہ وہ ساز کا


برقیؔ غزل سے اُس کی جو کرتا تھا کسبِ فیض

محرم نہیں ہے آج کوئی اُس کے راز کا


احمد علی برقیؔ اعظمی


احمد فراز کے یوم وفات کی مناسبت سے ان کی زمین میں لکھی گئیں تین فی البدیہہ غزلیں بعنوان خراج عقیدت

ایک زمین کئی شاعر

احمد فراز اور احمد علی برقی اعظمی


احمد فراز

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں 

یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں 

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے 

کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں 

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے 

ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں 

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی 

دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں 

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر 

بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں 

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں 

رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں 

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید 

دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں ! 

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا 

سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں 

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے 

ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں 

جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے 

شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں 

ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا 

غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں 

ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے 

ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں 

ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ 

جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں


غزل

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

گلبدن، غُنچہ دہن، سروِ خراماں جاناں

سر سے پا تک ہے ترا حُسن نمایاں جاناں

دُرِ دنداں سے خجل دُرِ عدن ہے تیرے

روئے انور ہے ترا لعلِ بدخشاں جاناں

چشمِ میگوں سے ہے سرشار یہ پیمانۂ دل

روح پرور ہے فروغِ رُخِ تاباں جاناں

دیکھ کر بھول گیا تجھ کو سبھی رنج و الم

سر بسر تو ہے علاجِ غمِ دوراں جاناں

تیرہ و تار تھا کاشانۂ دل تیرے بغیر

رُخِ زیبا ہے ترا شمعِ شبستاں جاناں

لوٹ آئی ہے ترے آنے سے اب فصلِ بہار

تھا خزاں دیدہ مرے دل کا گلستاں جاناں

ہیچ ہیں سامنے تیرے یہ حسینانِ جہاں

میری نظروں میں ہے تو رشکِ نگاراں جاناں

کچھ نہیں دل میں مرے تھوک دے غصہ تو بھی

میں بھی نادم ہوں اگر تو ہے پشیماں جاناں

موجِ طوفانِ حوادث سے گذر جاؤں گا

کشتئ دل ہے یہ پروردۂ طوفاں جاناں

تو ہی ہے خواب کی تعبیرِ مجسم میرے

ماہِ تاباں کی طرح جو ہے درخشاں جاناں

یہ مرا رنگِ تغزل ہے تصدق تجھ پر

سازِ ہستی ہے مرا تجھ سے غزلخواں جاناں

ہے کہاں طبعِ رسا میری کہاں رنگِ فرازؔ 

یہ جسارت ہے مری جو ہوں غزلخواں جاناں

روح فرسا ہے جدائی کا تصور برقیؔ 

’’دل پُکارے ہی چلا جاتاہے جاناں جاناں‘‘


غزل

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

تھا مرا خانۂ دل بے سروساماں جاناں

اِس میں وحشت کے تھے آثار نمایاں جاناں

تو ہی افسانۂ ہستی کا ہے عنواں جاناں

سازِ دل دیکھ کے تجھ کو ہے غزلخواں جاناں

کیا ہوا کچھ تو بتا کیوں ہے پریشاں جاناں

آئینہ دیکھ کے کیوں آج ہے حیراں جاناں

شکریہ یاد دہانی کا میں ہوں چشم براہ

یاد ہے وعدۂ فردا ترا ہاں ہاں جاناں

تجھ سے پہلے تھا یہاں صرف خزاں کا منظر

تیرے آنے سے ہے اب فصلِ بہاراں جاناں

بال بانکا نہیں کرسکتا ترا کوئی کبھی

میں ترے ساتھ ہوں تو مت ہو حراساں جاناں

مُرتعش پہلے تھا برقیؔ یہ مرا تارِ وجود

جانے کیوں آج پھڑکتی ہے رگِ جاں جاناں


غزل

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

عہدِ حاضر میں ہے ہر شخص پریشاں جاناں

نہیں انسان سے بڑھ کر کوئی حیواں جاناں

جس طرف دیکھو اُدھر دوست نُما دشمن ہیں

آگیا دام میں جن کے دلِ ناداں داناں

غمِ دوراں سے ہو فرصت تو میں سوچوں کچھ اور

روح فَرسا ہے مری تنگئ داماں جاناں

میری غزلوں میں ہے جو سوزِ دُروں آج نہاں

میری رودادِ محبت کا ہے عُنواں جاناں

مجھ پہ جو گذری ہے اب تک نہ کسی پر گذرے

آئینہ دیکھ کے اب مجھ کو ہے حیراں جاناں

آپ بیتی ہیں مری میری غزل کے اشعار

سن کے سب لوگ ہیں انگشت بدنداں جاناں

ذہن ماؤف ہے برقیؔ کا غمِ دوراں سے

’’ دل پکارے ہی چلے جاتا ہے جاناں جاناں‘‘

احمد علی برقی اعظمی


خورشید طالب

 یوم پیدائش 25 اگست 1967


جس کو دیکھو وہی بیکار میں الجھا ہوا ہے

ہر گریبان کسی تار میں الجھا ہوا ہے


دشت بے چین ہے وحشت کی پذیرائی کو

دل وحشی در و دیوار میں الجھا ہوا ہے


جنگ دستک لیے آ پہنچی ہے دروازے تک

شاہزادہ لب و رخسار میں الجھا ہوا ہے


اک حکایت لب اظہار پہ ہے سوختہ جاں

ایک قصہ ابھی کردار میں الجھا ہوا ہے


سر کی قیمت مجھے معلوم نہیں ہے لیکن

آسماں تک مری دستار میں الجھا ہوا ہے


آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں

کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے


خورشید طلب


احمد کمال ہاشمی

 یوم پیدائش 24 اگست 1964


خبردار! میں حق نوا آدمی ہوں

مرے پاس مت آ، برا آدمی ہوں


ہر اک درد سے ماورا آدمی ہوں

بتاؤ میں پتھر ہوں یا آدمی ہوں


مرے دل کو تم نے دھڑکنا سکھایا

مجھے اب یہ لگنے لگا آدمی ہوں


کبھی میں رہا کرتا تھا اپنے گھر میں

میں اب گھر میں رکّھا ہوا آدمی ہوں


سمجھتا رہا دیوتا کوئی مجھ کو

میں کہتا رہا بارہا، آدمی ہوں


تری یاد اور میرے غم ہمسفر ہیں

میں تنہا نہیں قافلہ آدمی ہوں


جو قیس اور فرہاد کا سلسلہ ہے

اسی زمرے کا تیسرا آدمی ہوں


مجھے منتروں کی ضرورت نہیں ہے

کئی سانپوں کا میں ڈسا آدمی ہوں


میں اب ہوگیا ہوں کماؔل اتنا چھوٹا

مجھے لگتا ہے میں بڑا آدمی ہوں


احمد کمال حشمی


ضیا رشیدی

 یہی ہے آرزو سب کو ترے رستے پہ لائیں گے 

زمانہ لاکھ روکے ہم قدم آگے بڑھائیں گے


کوئی کتنا بھی راہوں میں ہمارے بوئے کاٹا اب 

سبھی کے راہوں میں ہم تو فقط اب گل بچھائیں گے 


چمن ویران ہوجائے گا مت کاٹو درختوں کو 

ہنر سب کو شجر کاری کا اب ہر دم سکھائیں گے 


چمن میں باغبانی کا عمل کیسے کیا جاتا 

زمانے کو عمر فاروق کا قصہ سنائیں گے 


سدا ہم نے لہو سے گلستاں کو اپنے سینچا ہے 

یہ غدارِ وطن ہم کو بھلا کیسے بھگائیں گے 


سبھی خوشبو ہماری ہے سبھی گل بھی ہمارے ہیں

جو ہم روٹھے تو خوشبو اور گل سب روٹھ جائیں گے


ضیاء سارے زمانے کو یہی پیغام دے دینا 

وفائیں بانٹ کر نفرت جہاں سے ہم مٹائیں گے

   

ضیاء رشیدی


جیلانی کامران

 یوم پیدائش 24 اگست 1926

نظم قسمت کا پڑھنے والے


میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے 

عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے 

کون خفا ہے 

راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ 

آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ 

گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ 

رستہ کیا ہے منزل کیا ہے 

میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے 

ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے 

میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان 

عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان 

کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان 

ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے 

شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے 

جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے 

چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس 

آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس 

خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس 

دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے 

گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے 

فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے 


جیلانی کامران


نسیم امروہوی

 یوم پیدائش 24 اگست 1908


یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری 

کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری 


نسیم امروہوی


محمد الیاس کرگلی

 مل کے پھر چھوڑ گیا آج ہمارا کوئی 

اس سے بہتر تھا نہ بنتاتھا سہارا کوئی


درد ہو یا نہ ہو لینی ہی پڑے گی یہ دوا

عشق میں اس کے بغیر اور ہے چارہ کوئی؟


شہر بھر میں تیری ہی بات رہی ایسے میں

بھاگ نکلا ہے یہاں سے ہی بیچارا کوئی 


اک شکستہ مجھے کشتی کا سفر ہے درپیش 

ڈوبتی بھی نہیں، دیکھا نہ کنارہ کوئی 


محمد الیاس کرگلی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...