Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

شہناز نور

 یوم پیدائش 10 نومبر 1947


طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے

اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دیے


کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو

کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دیے


وہی مقابل بھی تھا میرا سنگ راہ بھی تھا

جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دیے


زرد رتوں کی گرد نے حال چھپایا تھا گھر کا

اک بارش نے دیواروں کے زخم اجال دیے


دھات کھری تھی جذبوں کی لیکن اجرت سے قبل

قسمت کی ٹکسال نے سکے کھوٹے ڈھال دیے


تازہ رت کے استقبال کی خاطر شاخوں نے

پیڑ کے سارے موسم دیدہ پات اچھال دیے


جن کو پڑھ کر پہلے ہنستی تھی پھر روتی تھی

آخر اک دن میں نے وہ خط آگ میں ڈال دیے


جن میں تھے مذکور حوالے تیری چاہت کے

نورؔ کتاب زیست سے وہ اوراق نکال دیے


شہناز نور


حسن فتحپوری

 عالمی یوم اردو

 نظم : شراب اردو کی 


مہک ہے چارو طرف بے حساب اردو کی 

اسی لئے تو ہے شہرت جناب اردو کی 

 

وہ اردو بول رہا ہے کس اعتماد کے ساتھ 

ہے اس کے چہرے پہ آب تاب اردو کی 


جو خود کو کہتے ہیں اردو زبان کا وارث 

رکھے ہیں طاق پہ گھر میں کتاب اردو کی 

 

وہ لکھ کے پڑھتے ہیں اپنا کلام ہندی میں 

مگر ہے چہرے پہ انکے نقاب اردو کی 


مشاعرے میں جو اردو کی بات کرتا ہے 

اسی کے گھر میں نہیں ہے کتاب اردو کی 


وہ گفتگو میں 'حسن' لڑکھڑا نہیں سکتا 

ادب میں چھک کے جو پی لے شراب اردو 


 حسن فتحپوری


راہی فدائی

 یوم پیدائش 09 نومبر 1949


احساس ذمہ داری بیدار ہو رہا ہے

ہر شخص اپنے قد کا مینار ہو رہا ہے


آواز حق کہیں اب روپوش ہو نہ جائے

حرف غلط برہنہ تلوار ہو رہا ہے


کس نقش کی جلا ہے انفاس کہکشاں میں

وہ کون سایہ سایہ دیوار ہو رہا ہے


منت گہ سیاہی اعلان خیر خواہی

کم ظرف ولولوں کا اظہار ہو رہا ہے


حیرت زدہ ہے راہیؔ دریا سے احتجاجاً

معصوم قطرہ قطرہ غدار ہو رہا ہے


راہی فدائی


فرخ ندیم

 یوم پیدائش 09 نومبر 1963


تیرے معیار پہ اترے تو کھرا لگتا ہے

ورنہ ہر شخص تجھے سب سے برا لگتا ہے

جب کہ اس دل میں اگر پھول کھلے ہوں تو ندیم

تپتے صحراؤں کا موسم بھی ہرا لگتا ہے


فرخ ندیم



نجمہ منصور

 یوم پیدائش 09 نومبر 1967

 نظم :- محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا


کبھی محبت کو یاد نہ بننے دینا

تمہیں معلوم نہیں ہے 

محبت یاد بن جائے تو

لمبے گھنے درختوں کی شاخوں کی مانند

بدن کے گرد

یوں لپٹ جاتی ہیں کہ سانسیں

رُک رُک کر آتی ہیں

ایک لمحہ کو

یوں لگتا ہے جیسے 

زندگی اور موت کے بیچ خانہ جنگی میں

زندگی ہارجائے گی

مگر محبت کی سسکیاں 

کچھ دیر سہم کر 

چُپ اوڑھ لیتی ہیں

اور پھر اُس ایک لمحے کی موت

کئی صدیوں پر بھاری ہوجاتی ہے

سنو!

بس اُس ایک لمحے کی سیاہی

رگوں میں گھلنے سے پہلے

یہ جان لو

محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا


نجمہ منصور


تابش دہلوی

 یوم پیدائش 09 نومبر 1910


دیکھیے اہل محبت ہمیں کیا دیتے ہیں

کوچۂ یار میں ہم کب سے صدا دیتے ہیں


روز خوشبو تری لاتے ہیں صبا کے جھونکے

اہل گلشن مری وحشت کو ہوا دیتے ہیں


منزل شمع تک آسان رسائی ہو جائے

اس لیے خاک پتنگوں کی اڑا دیتے ہیں


سوئے صحرا بھی ذرا اہل خرد ہو آؤ

کچھ بہاروں کا پتا آبلہ پا دیتے ہیں


مجھ کو احباب کے الطاف و کرم نے مارا

لوگ اب زہر کے بدلے بھی دوا دیتے ہیں


ساتھ چلتا ہے کوئی اور بھی سوئے منزل

مجھ کو دھوکا مرے نقش کف پا دیتے ہیں


زندگی مرگ مسلسل ہے مگر اے تابشؔ

ہائے وہ لوگ جو جینے کی دعا دیتے ہیں


تابش دہلوی


ثروت حسین

 یوم پیدائش 09 نومبر 1949


بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا


روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں

اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا


اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ

اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا


کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ

اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا


لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروتؔ

جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا


ثروت حسین


شمشاد شاد

 عالمی اُردو ڈے


بلا تفریق ہر اک کو جو سینے سے لگائے، وہ

محبت کی زباں اردو نہیں تو اور پھر کیا ہے


شمشاد شاؔد


 #اردودکن #urdudecca


n #urdu

احسن مارہروی

 یوم پیدائش 09 نومبر 1876


چاہیئے عشق میں اس طرح فنا ہو جانا

جس طرح آنکھ اٹھے محو ادا ہو جانا


کسی معشوق کا عاشق سے خفا ہو جانا

روح کا جسم سے گویا ہے جدا ہو جانا


موت ہی آپ کے بیمار کی قسمت میں نہ تھی

ورنہ کب زہر کا ممکن تھا دوا ہو جانا


اپنے پہلو میں تجھے دیکھ کے حیرت ہے مجھے

خرق عادت ہے ترا وعدہ وفا ہو جانا


وقعت عشق کہاں جب یہ تلون ہو وہاں

کبھی راضی کبھی عاشق سے خفا ہو جانا


جب ملاقات ہوئی تم سے تو تکرار ہوئی

ایسے ملنے سے تو بہتر ہے جدا ہو جانا


چھیڑ کچھ ہو کہ نہ ہو بات ہوئی ہو کہ نہ ہو

بیٹھے بیٹھے انہیں آتا ہے خفا ہو جانا


مجھ سے پھر جائے جو دنیا تو بلا سے پھر جائے

تو نہ اے آہ زمانے کی ہوا ہو جانا


احسنؔ اچھا ہے رہے مال عرب پیش عرب

دے کے دل تم نہ گرفتار بلا ہو جانا


احسن مارہروی


علامہ اقبال

 یوم پیدائش 09 نومبر 1877

وہ اشعار جن میں علامہ اقبال نے اپنا نام لکھا


جس کے دم سے دلّی و لاہور ہم پہلو ہوئے

آہ، اے اقبالؔ! وہ بُلبل بھی اب خاموش ہے


اسی اقبالؔ کی مَیں جُستجو کرتا رہا برسوں

بڑی مُدّت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِ دام آیا


اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتارکا یہ غازی تو بنا،کردار کا غازی بن نہ سکا


اقبالؔ بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں، و اللہ نہیں ہے


اقبالؔ نے کل اہلِ خیاباں کو سُنایا

یہ شعرِ نشاط آور و پُر سوز و طرب ناک

مَیں صُورتِ گُل دستِ صبا کا نہیں محتاج

کرتا ہے مرا جوشِ جُنوں میری قبا چاک


اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا


اقبالؔ کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملّتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار


واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں

اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے


خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبالؔ کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب


اقبالؔ یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

’از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز‘


اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے

رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے


اقبالؔ! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں

معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا


اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا

موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات


حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پُوچھا

اقبالؔ، کہ ہے قُمریِ شمشادِ معانی


اک پیشوائے قوم نے اقبالؔ سے کہا

کھُلنے کو جدّہ میں ہے شفاخانۂ حجاز


ایک دن اقبالؔ نے پُوچھا کلیمِ طُور سے

اے کہ تیرے نقشِ پا سے وادیِ سِینا چمن


بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن

عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں


اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں

تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے


ترا گُناہ ہے اقبالؔ! مجلس آرائی

اگرچہ تُو ہے مثالِ زمانہ کم پیوند


تُو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ

جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومیؔ


جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبالؔ

بُلا کے دَیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں


جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ مُحزوں عزیز میرے

مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا


خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم

نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی


دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا

یہ اک مردِ تن‌آساں تھا، تن‌آسانوں کے کام آیا


رازِ حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے

ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ


زائرانِ کعبہ سے اقبالؔ یہ پُوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں


سُنا ہے میں نے سخن رس ہے تُرکِ عثمانی

سُنائے کون اسے اقبالؔ کا یہ شعرِ غریب


سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے

نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!


صدائے لن ترانی سُن کے اے اقبالؔ میں چُپ ہوں

تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فُرقت کے مارے میں


غم نصیب اقبالؔ کو بخشا گیا ماتم ترا

چُن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا


فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر

میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری


مجموعۂ اضداد ہے، اقبالؔ نہیں ہے

دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفَقانی


مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ ’اقبال‘ کو دیکھوں

کی اس کی جُدائی میں بہت اشک فشانی


مرے اشعار اے اقبالؔ! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو

مرے ٹُوٹے ہُوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں


مسلم سے ایک روز یہ اقبالؔ نے کہا

دیوانِ جُزو و کُل میں ہے تیرا وجود فرد


مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ

مقامِ شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ


مُدیرِ ’مخزن‘ سے کوئی اقبالؔ جا کے میرا پیام کہہ دے

جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، اُنھیں مذاقِ سخن نہیں ہے


مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبالؔ!

کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر


میں نے اے اقبالؔ یورپ میں اُسے ڈھونڈا عبث

بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی


میں نے اقبالؔ سے از راہِ نصیحت یہ کہا

عاملِ روزہ ہے تُو اور نہ پابند نماز


نکلی تو لبِ اقبالؔ سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا

پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی


نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی

کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا


نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی


ٹھہَر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ

کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگُفتہ دماغ


پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو

غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گُلستاں ہو


چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ

کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا مُنہ بند!


ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو

آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں


بُرا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا

کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ اپنے نُکتہ چینوں میں


کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے

تہِ محرابِ مسجد سو گیا کون

نِدا مسجد کی دیواروں سے آئی

فرنگی بُت کدے میں کھو گیا کون؟


کہاں اقبالؔ تُو نے آ بنایا آشیاں اپنا

نوا اس باغ میں بُلبل کو ہے سامانِ رُسوائی


کہاں سے تُونے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی

کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا


کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا

فسوں تھا کوئی، تیری گُفتار کیا تھی


کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمّازی

گُستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حِنابندی


ہر نفَس اقبالؔ تیرا آہ میں مستور ہے

سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے


ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبالؔ

اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کرے


ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبالؔ تو

رونقِ ہنگامۂ محفل بھی ہے، تنہا بھی ہے


یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بُتوں سے اپنا غُبارِ راہِ حجاز ہو جا


علامہ اقبال


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...