Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

عرفان شاہد

 یوم پیدائش 10 نومبر


تمہیں لگا ہے کہ ایسے ہی ہم اداسیوں سے پلٹ گئے ہیں 

ہمارے تو ایک دوجے کو چوم چوم کے ہونٹ پھٹ گئے ہیں


یہ پیڑ پیاسے ہیں کب تلک ایسے چھاؤں کو بانٹتے رہے گے

تجھے خبر آۓ گی کسی دن کہ راستے سے ہی ہٹ گئے ہیں


خدا کی اس کائنات میں کچھ بھی دسترس میں نہیں رہا ہے

تجھے گنوا کے تولگ رہا ہے مجھے مرے ہاتھ کٹ گئے ہیں


کسی کی خوشبو کا اک خلا ہے جو آج تک پر نہیں ہوا ہے 

 نجانے کتنوں سے ہم ملے کتنوں کے گلے سے لپٹ گئے ہیں


یقین مانو کہ کوئی بھی ٹھیک سے نہیں سانس لے رہا ہے

 کہ ہم کبھی بس دو لوگ تھے اور تین حصوں میں بٹ گئے ہیں

 

عرفان شاہد


فیاض علی فیاض

 یوم پیدائش 10 نومبر 1952


گر پیار سے روکا تو ٹھہر جائے گی خوشبو

ورنہ تیرے کوچے سے گزر جائے گی خوشبو


اس واسطے پھرتی ہے تعاقب میں تمہارے

چھولے گی جو تم کو تو نکھر جائے گی خوشبو


ظالم تجھے اس بات کا احساس نہیں ہے

پھولوں کو جو مسلے گا تو مر جائے گی خوشبو


پھولوں کا لہو جب کبھی صحرا میں بہے گا

تپتے ہوئے صحرا میں بکھر جائے گی خوشبو


قاصد تو بنا لیتا میں خوشبو کو بھی لیکن

جا کر در جاناں پہ ٹھہر جائے گی خوشبو


مل جائے اگر اس کو کوئی نور کا پیکر کر

پل بھر میں خلاؤں سے گزر جائے گی خوشبو


چاہت کی تمنا میں ہے وہ کب سے سفر میں

لگتا ہے کہ تھک ہار کے گھر جائے گی خوشبو


رہتا ہوں اسی فکر میں فیاض پریشان

بچھڑوں گا جب اس سے تو کدھر جائے گے خوشبو


فیاض علی فیاض


نور پاتوری

 یوم پیدائش 10 نومبر 1949


ناکامیوں کی بھیڑ میں ایسا مجھے لگا

اب تک مرے نصیب کا سورج نہیں اگا


ہے قوم کو ضرورت انوار آگہی

ہر آنکھ محو خواب ہے آواز دے چکا


پردہ پڑا ہے عقل پہ طاری ہے بے حسی

یہ کاہلانہ پن کا مرض ہے اسے بھگا


ہر ایک کو ہے فکر فقط اپنی ذات کی

یاری نہ دوستی ہے نہ اپنا کوئی سگا


اے نور سادگی کا زمانہ کہاں رہا

یاروں نے رشتہ داروں نے دھوکا دیا ٹھگا


نور پاتوری 


شہناز نور

 یوم پیدائش 10 نومبر 1947


طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے

اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دیے


کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو

کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دیے


وہی مقابل بھی تھا میرا سنگ راہ بھی تھا

جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دیے


زرد رتوں کی گرد نے حال چھپایا تھا گھر کا

اک بارش نے دیواروں کے زخم اجال دیے


دھات کھری تھی جذبوں کی لیکن اجرت سے قبل

قسمت کی ٹکسال نے سکے کھوٹے ڈھال دیے


تازہ رت کے استقبال کی خاطر شاخوں نے

پیڑ کے سارے موسم دیدہ پات اچھال دیے


جن کو پڑھ کر پہلے ہنستی تھی پھر روتی تھی

آخر اک دن میں نے وہ خط آگ میں ڈال دیے


جن میں تھے مذکور حوالے تیری چاہت کے

نورؔ کتاب زیست سے وہ اوراق نکال دیے


شہناز نور


حسن فتحپوری

 عالمی یوم اردو

 نظم : شراب اردو کی 


مہک ہے چارو طرف بے حساب اردو کی 

اسی لئے تو ہے شہرت جناب اردو کی 

 

وہ اردو بول رہا ہے کس اعتماد کے ساتھ 

ہے اس کے چہرے پہ آب تاب اردو کی 


جو خود کو کہتے ہیں اردو زبان کا وارث 

رکھے ہیں طاق پہ گھر میں کتاب اردو کی 

 

وہ لکھ کے پڑھتے ہیں اپنا کلام ہندی میں 

مگر ہے چہرے پہ انکے نقاب اردو کی 


مشاعرے میں جو اردو کی بات کرتا ہے 

اسی کے گھر میں نہیں ہے کتاب اردو کی 


وہ گفتگو میں 'حسن' لڑکھڑا نہیں سکتا 

ادب میں چھک کے جو پی لے شراب اردو 


 حسن فتحپوری


راہی فدائی

 یوم پیدائش 09 نومبر 1949


احساس ذمہ داری بیدار ہو رہا ہے

ہر شخص اپنے قد کا مینار ہو رہا ہے


آواز حق کہیں اب روپوش ہو نہ جائے

حرف غلط برہنہ تلوار ہو رہا ہے


کس نقش کی جلا ہے انفاس کہکشاں میں

وہ کون سایہ سایہ دیوار ہو رہا ہے


منت گہ سیاہی اعلان خیر خواہی

کم ظرف ولولوں کا اظہار ہو رہا ہے


حیرت زدہ ہے راہیؔ دریا سے احتجاجاً

معصوم قطرہ قطرہ غدار ہو رہا ہے


راہی فدائی


فرخ ندیم

 یوم پیدائش 09 نومبر 1963


تیرے معیار پہ اترے تو کھرا لگتا ہے

ورنہ ہر شخص تجھے سب سے برا لگتا ہے

جب کہ اس دل میں اگر پھول کھلے ہوں تو ندیم

تپتے صحراؤں کا موسم بھی ہرا لگتا ہے


فرخ ندیم



نجمہ منصور

 یوم پیدائش 09 نومبر 1967

 نظم :- محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا


کبھی محبت کو یاد نہ بننے دینا

تمہیں معلوم نہیں ہے 

محبت یاد بن جائے تو

لمبے گھنے درختوں کی شاخوں کی مانند

بدن کے گرد

یوں لپٹ جاتی ہیں کہ سانسیں

رُک رُک کر آتی ہیں

ایک لمحہ کو

یوں لگتا ہے جیسے 

زندگی اور موت کے بیچ خانہ جنگی میں

زندگی ہارجائے گی

مگر محبت کی سسکیاں 

کچھ دیر سہم کر 

چُپ اوڑھ لیتی ہیں

اور پھر اُس ایک لمحے کی موت

کئی صدیوں پر بھاری ہوجاتی ہے

سنو!

بس اُس ایک لمحے کی سیاہی

رگوں میں گھلنے سے پہلے

یہ جان لو

محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا


نجمہ منصور


تابش دہلوی

 یوم پیدائش 09 نومبر 1910


دیکھیے اہل محبت ہمیں کیا دیتے ہیں

کوچۂ یار میں ہم کب سے صدا دیتے ہیں


روز خوشبو تری لاتے ہیں صبا کے جھونکے

اہل گلشن مری وحشت کو ہوا دیتے ہیں


منزل شمع تک آسان رسائی ہو جائے

اس لیے خاک پتنگوں کی اڑا دیتے ہیں


سوئے صحرا بھی ذرا اہل خرد ہو آؤ

کچھ بہاروں کا پتا آبلہ پا دیتے ہیں


مجھ کو احباب کے الطاف و کرم نے مارا

لوگ اب زہر کے بدلے بھی دوا دیتے ہیں


ساتھ چلتا ہے کوئی اور بھی سوئے منزل

مجھ کو دھوکا مرے نقش کف پا دیتے ہیں


زندگی مرگ مسلسل ہے مگر اے تابشؔ

ہائے وہ لوگ جو جینے کی دعا دیتے ہیں


تابش دہلوی


ثروت حسین

 یوم پیدائش 09 نومبر 1949


بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا


روشن ہے مری عمر کے تاریک چمن میں

اس کنج ملاقات میں جو وقت گزارا


اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ

اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا


کچھ سیکھ لو لفظوں کو برتنے کا سلیقہ

اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا


لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروتؔ

جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا


ثروت حسین


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...