Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

احمد ظفر

 یوم پیدائش 13 نومبر 1926.


اور کیا میرے لیے عرصۂ محشر ہوگا

میں شجر ہوں گا ترے ہاتھ میں پتھر ہوگا


یوں بھی گزریں گی ترے ہجر میں راتیں میری

چاند بھی جیسے مرے سینے میں خنجر ہوگا


زندگی کیا ہے کئی بار یہ سوچا میں نے

خواب سے پہلے کسی خواب کا منظر ہوگا


ہاتھ پھیلائے ہوئے شام جہاں آئے گی

بند ہوتا ہوا دروازۂ خاور ہوگا


میں کسی پاس کے صحرا میں بکھر جاؤں گا

تو کسی دور کے ساحل کا سمندر ہوگا


وہ مرا شہر نہیں شہر خموشاں کی طرح

جس میں ہر شخص کا مرنا ہی مقدر ہوگا


کون ڈوبے گا کسے پار اترنا ہے ظفرؔ 

فیصلہ وقت کے دریا میں اتر کر ہوگا


احمد ظفر


اختر علوی

 میرا دل, میری جان ہے اردو

علم و عرفاں کی شان ہے اردو

ہر زباں کی زبان پر ہے یہی

سب سے شیریں زبان ہے اردو

اختر علوی


اختر الایمان

 یوم پیدائش 12 نومبر 1915


کس کی یاد چمک اٹھی ہے دھندلے خاکے ہوئے اجاگر

یونہی چند پرانی قبریں کھود رہا ہوں تنہا بیٹھا


کہیں کسی کا ماس نہ ہڈی کہیں کسی کا روپ نہ چھایا

کچھ کتبوں پر دھندلے دھندلے نام کھدے ہیں میں جیون بھر


ان کتبوں ان قبروں ہی کو اپنے من کا بھید بنا کر

مستقبل اور حال کو چھوڑے، دکھ سکھ سب میں لیے پھرا ہوں


ماضی کی گھنگھور گھٹا میں چپکا بیٹھا سوچ رہا ہوں

کس کی یاد چمک اٹھی ہے، دھندلے خاکے ہوئے اجاگر؟


بیٹھا قبریں کھود رہا ہوں، ہوک سی بن کر ایک اک مورت

درد سا بن کر ایک اک سایا، جاگ رہے ہیں دور کہیں سے


آوازیں سی کچھ آتی ہیں، ''گزرے تھے اک بار یہیں سے''

حیرت بن کر دیکھ رہی ہے، ہر جانی پہچانی صورت


گویا جھوٹ ہیں یہ آوازیں، کوئی میل نہ تھا ان سب سے

جن کا پیار کسی کے دل میں اپنے گھاؤ چھوڑ گیا ہے


جن کا پیار کسی کے دل سے سارے رشتے توڑ گیا ہے

اور وہ پاگل ان رشتوں کو بیٹھا جوڑ رہا ہے کب سے


اختر الایمان


احمد راہی

 یوم پیدائش 12 نومبر 1923


دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے

درد کے ماروں سے اب بات کہاں ہوتی ہے


ایک سے چہرے تو ہوتے ہیں کئی دنیا میں

ایک سی صورت حالات کہاں ہوتی ہے


زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے

مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے


آسمانوں سے کوئی بوند نہیں برسے گی

جلتے صحراؤں میں برسات کہاں ہوتی ہے


یوں تو اوروں کی بہت باتیں سنائیں ان کو

اپنی جو بات ہے وہ بات کہاں ہوتی ہے


جیسی آغاز محبت میں ہوا کرتی ہے

ویسی پھر شدت جذبات کہاں ہوتی ہے


پیار کی آگ بنا دیتی ہے کندن جن کو

ان کے ذہنوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے


احمد راہی


اسماعیل میرٹھی

 یوم پیدائش 12 نومبر 1944


تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا


پاؤں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی

اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا


مٹی سے بیل بوٹے کیا خوش نما اگائے

پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا


خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے

اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا


میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے

چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا


سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی

رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا


پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی

اور بادلوں کو تو نے مینہ کا نشاں بنایا


یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی

قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا


تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے

کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا


اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں

ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا


کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے

چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا


رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر

ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدرداں بنایا


آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے

مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا


ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی

یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا


اسماعیل میرٹھی


سیدہ منور جہاں منور

 یوں سارے گُل رخوں کا تو چہرہ ہے منفرد

لیکن چمن میں وہ گُلِ رعنا ہے منفرد


لپٹی ہے میرے تن سے امر بیل پیار کی

یہ کائناتِ شوق کا پودا ہے منفرد


جو بھی اُٹھا یہاں سے وہ خورشید ہوگیا

اس سر زمینِ پاک کا ذرّہ ہے منفرد


دُنیا میں یوں تو اچھے کئی شہر ہیں مگر

ہر زاویے سے وادیِ بطحا ہے منفرد


ہر وقت کھوئے رہتے ہیں وہ جذبِ شوق سے

دیوانگانِ عشق کی دُنیا ہے منفرد


جبریل کہہ رہے ہیں یہی آسمان سے

اب کرّۂ زمین کا نقشہ ہے منفرد


نجم و قمر سے شب تو منّورؔ ادب کی ہے

لیکن وہ آسمان کا تارا ہے منفرد


سیدہ منوّر جہاں م


نوّر


بسمل الہ آبادی

 یوم پیدائش 11 نومبر 1899


ساز ہستی کا عجب جوش نظر آتا ہے

اک زمانہ ہمہ تن گوش نظر آتا ہے


حسرت جلوۂ دیدار ہو پوری کیوں کر

وہ تصور میں بھی روپوش نظر آتا ہے


دیکھتے جاؤ ذرا شہر خموشاں کا سماں

کہ زمانہ یہاں خاموش نظر آتا ہے


آپ کے نشتر مژگاں کو چبھو لیتا ہوں

خون دل میں جو کبھی جوش نظر آتا ہے


آپ ہی صرف جفا کوش نظر آتے ہیں

سارا عالم تو وفا کوش نظر آتا ہے


موسم گل نہ رہا دل نہ رہا جی نہ رہا

پھر بھی وحشت کا وہی جوش نظر آتا ہے


شانۂ یار پہ بکھری تو نہیں زلف دراز

ہر کوئی خانماں بر دوش نظر آتا ہے


جلوۂ قدرت باری کا معمہ نہ کھلا

روبرو رہ کے بھی روپوش نظر آتا ہے


پھر ذرا خنجر قاتل کو خبر دے کوئی

خون بسملؔ میں وہی جوش نظر آتا ہے


بسمل الہ آبادی


وفا صمدانی

 یوم پیدائش 11 نومبر


محبت کا کرشمہ یہ ہوا ہے

کہ اس کا نام لب پر آگیا ہے


خدا جانے کہاں منزل ہے میری

نگاہوں کا یہ رستہ بھا گیا ہے


بھلا سکتی نہیں اس کو وفا میں

وہ میرے ذہن و دل پر چھا گیا ہے


وفا صمدانی


ورید اللہ ورید

 یوم پیدائش 11 نومبر


آدم کے ساتھ دیس نکالا دیا مجھے

قدرت نے دیکھنے کو تماشا دیا مجھے


اتنا ہنسا کہ آنکھ بھی پانی سے بھر گئی

اک شخص نے مذاق میں الجھا دیا مجھے


خود کو قصوروار سمجھنے لگا تھا میں

اس نے کچھ اس حساب سے دھوکا دیا مجھے


حاکم نے شاہ زادی سے الفت کے جرم میں

اک خواب کی فصیل میں چنوا دیا مجھے


آنکھیں کھلیں ورید تغافل کی بھیڑ میں

گل نے جہانِ خواب سے چونکا دیا مجھے


ورید اللہ ورید


مشتاق صدف

 یوم پیدائش 11 نومبر 1969


آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا

میرے چہرے میں مرا چہرہ نہ تھا


نیند لپٹی رہ گئی اس خواب سے

در حقیقت خواب جو اپنا نہ تھا


اک پڑوسی دوسرے سے نابلد

بے مروت شہر تو اتنا نہ تھا


روشنی کا یہ بھی ہے اک تجربہ

میں جہاں بھٹکا تھا اندھیارا نہ تھا


ہاتھ جو کھولا تو بچہ رو پڑا

بند مٹھی میں کوئی سکہ نہ تھا


مشتاق صدف


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...