Urdu Deccan

Monday, November 15, 2021

نعمان نویس

 یوم پیدائش 15 نومبر 


جس گھڑی میں نے کی دعائے کُن

آئی فوراً مجھے صدائے کُن


آپ ﷺ کا واسطہ دیا رب کو

مجھ پہ ہونے لگی عطائے کُن


پوری ہونے لگی دعا میری

جوں ہی نکلا لبوں سے ہائے کُن


میں نے کھلتا گلاب جب دیکھا

تب کھلی مجھ پہ یہ قبائے کُن


تو ہی مالک ہے سب کرشموں کا

کون تیرے سوا خدائے کُن


نعمان نویس


ایمان قیصرانی

 یوم پیدائش 15 نومبر


تو اپنی ذات کے زنداں سے گر رہائی دے 

تو مجھ کو پھر مرے ہم زاد کچھ دکھائی دے 


بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری 

مرے خدا مجھے اتنی بڑی خدائی دے 


میں اس کو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت 

وہ مجھ کو روح کی پاتال میں دکھائی دے 


بجھا چکا ہے زمانہ چراغ سب لیکن 

یہ میرا عشق کہ ہر راستہ دکھائی دے 


ہمارے شہر کے سوداگروں کی محفل میں 

وہ ایک شخص کہ سب سے الگ دکھائی دے 


اسے غرور عطا ہے کوئی تو اب آئے 

جو اس کے دست میں بھی کاسۂ گدائی دے 


پلٹ بھی سکتی ہوں ایماںؔ فنا کی راہوں سے 

اگر کوئی مجھے اس نام کی دہائی دے 


ایمان قیصرانی


افضل ہزاروی

 یوم پیدائش 15 نومبر 1958


سج گیا زخموں سے دل آنگن تو کیا

نم ہوا اشکوں سے اب دامن تو کیا


جل چکا دھرتی کا سینہ دھوپ سے

اب اگر برسا ہے یہ ساون تو کیا


کوئی حسرت لے گیا دیدار کی

اب اٹھے ہے لاکھ وہ چلمن تو کیا


راس دل کو آ سکیں نا پھول جب

لاکھ ہو جنت نما گلشن تو کیا


ہم بھی رکنے کے نہیں افضل میاں

راستے میں ہے کھڑی الجھن تو کیا


افضل ہزاروی


احسان سہگل

 یوم پیدائش 15 نومبر 1951


اب افسوس کرنے سے کیا ہوگا حاصل

ہماری تباہی میں تم بھی تھے شامل


قیامت جو گزری ہے ہم پر جہاں میں

نہیں اس میں اپنی خطا کوئی شامل


بس آنکھوں میں آئے ہوئے اشک پی کر

دل غم زدہ پر تو رکھ صبر کامل


ہے قبضہ سبھی ساحلوں پر عدو کا

کہیں بھی نہیں میری کشتی کا ساحل


دعا ہی ہوئی جب نہ پوری ہماری

دل اپنا ہے اب تو گناہوں پہ مائل


دعا مانگتا ہے ہمیشہ یہ سہگلؔ

بنانا مجھے اپنے ہی در کا سائل


احسان سہگل


امت بجاج

 یوم پیدائش 15 نومبر 1976


کس کو کس کا ساتھ نبھانا ہوتا ہے 

وقت کی رو کا صرف بہانا ہوتا ہے 


پہلے ایک تجسس بنتا ہے ہم کو 

پھر حالات کا تانا بانا ہوتا ہے 


میں بچوں کی باتیں غور سے سنتا ہوں 

ان باتوں سے ذہن سیانا ہوتا ہے 


دھڑکن تو بس سینے کا دل رکھتی ہے 

دل کا کوئی اور ٹھکانا ہوتا ہے 


ایک حقیقت کی بس ایک جھلک کے لیے 

کتنے خوابوں کو ٹکرانا ہوتا ہے 


ہم جل کر اطراف کو روشن کرتے ہیں 

ان کو بس کھڑکی تک آنا ہوتا ہے


امت بجاج


Sunday, November 14, 2021

واحد کشمیری

 کچھ خاص ہے مایوس حنا کچھ نہیں کہتے

کچھ خاص مگر جورو جفاکچھ نہیں کہتے


کچھ لوگ مری یاد میں بن ٹھن کے بسے ہیں

کچھ لوگ مرے بارے میں کیا کچھ نہیں کہتے


کچھ روز صداقت کے لئےجان نچھاور

کچھ روز بدلتے ہیں خدا کچھ نہیں کہتے


کچھ جان سمجھ کر ہی مرے دستِ سُخن پر

کچھ جانِ دہن  کوئی صدا کچھ نہیں کہتے


کچھ طرحِ نزاکت پہ کبھی شور مچائیں

کچھ طرح بیاں طرحِ اداکچھ نہیں کہتے


کچھ بعدِ ستم ہوگئی منقول محبت

کچھ بعدِ خطا عرض وفا کچھ نہیں کہتے


کچھ وقت خرابات مگر جان بچی ہے

کچھ وقتِ تقاضات  اہا کچھ نہیں کہتے


کچھ اور ہی واحد سے نیا مانگ رہے ہو

کچھ اور ہے گھنگھور گھٹا کچھ نہیں کہتے


واحد کشمیری


سورج نرائن مہر

 یوم پیدائش 13 نومبر 1859


مستقل درد کا سیلاب کہاں اچھا ہے

وقفۂ سلسلۂ آہ و فغاں اچھا ہے


ہو نہ جائے مرے لہجے کا اثر زہریلا

ان دنوں منہ سے نکل جائے زباں اچھا ہے


مجھ سے مانگے گی مری آنکھ گلابی منظر

ہو مرے ہاتھ میں تصویر بتاں اچھا ہے


جن کے سینے میں تعصب نہیں پلتا کوئی

ایسے لوگوں کے لیے سارا جہاں اچھا ہے


کتنے چالاک ہیں یہ اونچی حویلی والے

ہم سے کہتے ہیں کہ مٹی کا مکاں اچھا ہے


زیر لب رینگتا رہتا ہے تبسم سورجؔ

اس قیامت سے تو آہوں کا دھواں رہتا ہے


سورج نرائن مہر


اقبال بالے

 جو لکھ گئی تھی ہماری قسمت وہی ہوئی ہے

"کہ یہ اداسی ہمارا سایہ بنی ہوئی ہے"


حسین زلفوں کے پیچ و خم میں الجھ گئے تھے

گزرتے لمحوں کے ساتھ پھر آگہی ہوئی ہے


روش کو اپنایا قیس و فرہاد کی تبھی تو

ہماری الفت کی داستاں سنسنی ہوئی ہے


نہیں ہے مجھ میں کوئی کمال اور شعور و دانش

کرم ہے رب کا جو بات اب تک بنی ہوئی ہے


اسی لئے جی رہا ہوں میں اس جہاں میں ،بالے

یہاں کی ہر شے میں وجہِ نسیاں بھری ہوئی ہے


اقبال بالے


ظہیر مشتاق

 یوم پیدائش 14 نومبر 1982


بچھڑتے وقت بھی ہارا نہیں گیا مجھ سے 

وہ جا رہا تھا پکارا نہیں گیا مجھ سے 


جو سچ کہوں تو زمانہ تری جدائی کا 

گزر گیا ہے گزارا نہیں گیا مجھ سے 


لچکتی شاخ بلاتی ہی رہ گئی لیکن

پرایا پھول اتارا نہیں گیا مجھ سے 


بدل چکا ہوں میں اتنا سوانگ بھرتے ہوئے

خود اپنا روپ ہی دھارا نہیں گیا مجھ سے 


جو ایک بارِ زیاں تھا ظہیر شانے پر

گرا دیا ہے اتارا نہیں گیا مجھ سے


ظہیر مشتاق


اطہر عطو


 وہ چاند ہے ستارہ ہے یا آفتاب ہے ؟

آنکھوں میں روشنی کی جگہ جس کا خواب ہے


میں آرزو کے گاوں کی لڑکی ہوں خار سی

تو شہرِ ممکنات کا کھلتا گلاب ہے


 مرنا ہی اب روا ہے مجھے ربِ کائنات

اس نامراد دور میں جینا عذاب ہے


اطہر عطو

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...