Urdu Deccan

Saturday, November 20, 2021

شاہد عباس ملک

 بوسے لئے اجل کے ، اذیت تمام شد 

اے عشقِ نا مراد ، مصیبت تمام شد 


چھوڑا جو مہ جبینوں کو دل پارسا ہوا 

صد شکر ساحروں کی حکومت تمام شد


منظورِ انجمن ہوا جب سے یہ بے نوا 

مقدور مل گیا تو ضرورت تمام شد


مخلص اگر ملا بھی تو مفلس کے بھیس میں 

ثروت جو ہاتھ آئی ، عقیدت تمام شد


حاتم تمہارے نام کی بنیاد ہے فقیر 

سائل ہی اٹھ گیا تو سخاوت تمام شد


جتنے محل نشین تھے پتھر کے ہوگئے 

شکوے پہ خاک ڈالیں، شکایت تمام شد


شاہد جفائے یار سے صد معذرت ، کہ دل

رخصت ہوا جہاں سے ، سہولت تمام شد


شاہد عباس ملک


Tuesday, November 16, 2021

ظہور بیگ

 ایک گھر پر ہی جی رہے ہیں بس 

لوگ اندر ہی جی رہے ہیں بس


مر گئے ہیں تمام قسم کے پھول 

دل کے پتھر ہی جی رہے ہیں بس


کچھ نہیں ہے یہاں پہ دریا کا 

یہ سمندر ہی جی رہے ہیں بس


ظہور بیگ


ڈاکٹر گلشن رائے کنول

 یوم پیدائش 16 نومبر 1935


لوگ بد حال ہیں مکانوں میں

اپنے گھر کے ہی تنگ خانوں میں


وہ پرندے جو روز اُڑتے تھے

آج قیدی ہیں آشیانوں میں


جن کو دنیا میں گھر ملا ہی نہیں

وہ ہیں مہمان شامیانوں میں


اُن ضعیفوں کا حال مت پوچھو 

تھے جو پہلے ہی نیم جانوں میں


اہلِ دنیا کو شک ہے اُن کے خلاف

کوئی سازش ہے آسمانوں میں


اَن گنت لوگ جو زمیں پر تھے

آج شامل ہیں آنجہانوں میں


گھر میں ٹھرو یہ حکم ہے جب سے

کون ملتا ہے کارخانوں میں


کچھ تو بیمار اپنے گھر پر ہیں

اور کچھ بند خستہ خانوں میں


اک وبا ہے کنول کتھا جس کی

لکھی جائے گی داستانوں میں


 ڈاکٹر گلشن رائے کنول


جاوید عارف

 نکلا تری تلاش میں پہنچا کدھر کو میں 

کیا دوش دوں نصیب کو یا راہگزر کو میں

 

کوئی چراغ ساتھ نہ اسباب ہم سفر

کیسے کروں گا طے شبِ غم کے سفر کو میں 


حاجت طبیب کی نہ دوا کی رہے گی پھر

چھو لوں جو ایک بار ترے سنگِ در کو میں


دل کو متاعِ غم نے ہی سیراب کر دیا

ٹھکرا چکا ہوں اس لئے لعل و گہر کو میں  


ہوتے قدم قدم پہ ہیں اس راہ حادثے 

رکھ لوں گا ساتھ ساتھ کسی نوحہ گر کو میں 


میرے خلاف آج وہی شخص ہے کھڑا 

جس پر لٹا چکا ہوں کہ جان و جگر کو میں


عارف جو لاکھ ہجر میں یوں ضبط بھی کروں 

ممکن نہیں کہ روک سکو ں چشم ِ تر کو میں


   جاوید عارف


حافظ علی مہدی عرفانی

 کام تو باکمال کر ڈالا

اس نے ترک وصال کر ڈالا


کتنی دلسوز اسکی حرکت تھی

میرا جینا محال کر ڈالا


میں تو بس اتصال چاہتا تھا

اس نے کیوں انفصال کر ڈالا


جس کی خاطر مسرتیں بانٹیں

اس نے ہی پر ملال کر ڈالا


جس کے دلبر تھے ہم کبھی مہدی

اس نے ہی پر ملال کر ڈالا


حافظ علی مہدی عرفانی


محمد وقار احمد نوری

 وہ منہ جب کھول دیتے ہیں

لبوں سے پھول جھڑتے ہیں


شناسائی جو ہیں میرے

وہی خوشیوں سے جلتے ہیں


نہیں علم و ہنر کوئی

خیالِ خام رکھتے ہیں


ہمیشہ چھپ کے وہ مجھ سے

مری باتوں کو سنتے ہیں


حقیقت ہے مرے دلبر

تری خاطر ہی رکتے ہیں


جنہیں پیاری نہیں عزت

وہ سستے دام بکتے ہیں


بھری محفل میں اپنے بھی

رلا کر خوب ہنستے ہیں


کبھی ملنے نہیں آتے

بہت مصروف رہتے ہیں


تری یادوں میں کھو کر ہم

سدا گھٹ گھٹ کے جیتے ہیں


تمہارے چاہنے والے

شرابِ عشق پیتے ہیں


ذرا سے بات سن کر وہ

بہت مایوس ہوتے ہیں


جو کرتے ہیں بڑی باتیں

وہی ٹکڑوں پہ پلتے ہیں


ابھی تکلیف نہ دینا

دلوں کے زخم سلتے ہیں


ہو ماضی حال و مستقبل

سدا لڑتے ہی لڑتے ہیں


مجھے افسوس ہے بے حد

کہ سکے کھوٹے چلتے ہیں


لگا کے مجھ کو سینے سے

دعائیں خوب دیتے ہیں


وہ تجھ سے کرتے ہیں الفت

تجھے ہی یاد کرتے ہیں


جنہیں آتا نہیں کچھ بھی

حماقت پہلے کرتے ہیں


کبھی لڑنا نہیں یارو

وقارِ نوری کہتے ہیں



محمد وقار احمد نوری

شاہد عباس ملک

 بوسے لئے اجل کے ، اذیت تمام شد 

اے عشقِ نا مراد ، مصیبت  تمام شد 


چھوڑا جو مہ جبینوں کو  دل پارسا ہوا 

صد شکر ساحروں کی حکومت تمام شد


منظورِ انجمن ہوا جب سے یہ بے نوا 

مقدور مل گیا تو ضرورت تمام شد


مخلص اگر ملا بھی تو مفلس کے بھیس میں 

ثروت جو ہاتھ آئی ، عقیدت تمام شد


حاتم تمہارے نام کی بنیاد ہے فقیر 

سائل ہی اٹھ گیا تو سخاوت تمام شد


جتنے محل نشین تھے پتھر کے ہوگئے 

شکوے پہ خاک ڈالیں، شکایت تمام شد


شاہد جفائے یار سے صد معذرت ، کہ دل

رخصت ہوا جہاں سے ، سہولت تمام شد


شاہد عباس ملک


Monday, November 15, 2021

اکبر الہ آبادی

 یوم پیدائش 16 نومبر 1846


غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا

آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا


جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا

بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا


اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو

سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا


تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے

ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا


میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا

لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا


ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا


اکبر الہ آبادی


, محمد شمیم قاسمی

 بھلاکر یاد کرنا  پھر  بھلا  دینا بہانے  سے 

مجھے یہ درد سہنا پڑ رہاہے اک زمانے سے 


گل و بلبل، سمندر، چاند، تارے سب بجا لیکن 

نظارے پر کشش لگنے لگے ہیں ان کے آنے سے 


وصالِ یار!  مدت ہوگئی سینے سے لگ جاؤ 

دلِ بیتاب گھٹ گھٹ مر رہاہے آزمانے سے 


ہزاروں تتلیاں رقصاں درونِ ذات ہیں پھر بھی 

مجھے  آرام  ملتا ہے  کسی کے   سُر  لگانے سے 



محمد شمیم قاسمی


شعیب شارق صدیقی

 یوم پیدائش 15 نومبر 1960

میں اپنے آپ کو تب خوش نصیب سمجھوں گا

در رسول ﷺ پہ خود کو اگرچہ پایا میں


شعیب شارق صدیقی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...