ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش کے حوالے سے ایک مطلع۔۔۔۔
تاریخ کے اوراق میں تابندہ رہیں گے
مرجائیں گے، دنیا میں مگر زندہ رہیں گے
دیشمکھ ابن مقصود مہروی
ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش کے حوالے سے ایک مطلع۔۔۔۔
تاریخ کے اوراق میں تابندہ رہیں گے
مرجائیں گے، دنیا میں مگر زندہ رہیں گے
دیشمکھ ابن مقصود مہروی
یوم پیدائش 20 نومبر 1916
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
احمد ندیم قاسمی
یاد رفتگاں: بیاد فیض احمد فیضؔ مرحوم
یوم پیدائش: ۱۳ فروری ۱۹۱۱
یوم وفات: ۲۰ نومبر ۱۹۸۴
فیضؔ تھے دنیائے اردو کے دلوں پر حکمراں
ہیں جہاں فکر و فن میں اُن کی عظمت کے نشاں
اُن کے ہیں شعروسخن میں جو نقوشِ جاوداں
آج بھی ہیں اور رہیں گے زیبِ تاریخِ جہاں
اُن کی تخلیقات ہیں اردو ادب کا شاہکار
جو ہیں دنیائے ادب میں مرجعِ دانشوراں
اُن کی غزلیں اور نظمیں شہرۂ آفاق ہیں
ہوتے ہیں محظوظ یکساں جن سے سب پیر و جواں
شخصیت تھی اُن کی اپنے آپ میں اک انجمن
عہدِ نو میں تھے وہ اردو کے امیرِ کارواں
تھے شعورِ فن سے اپنے خسروِ ملکِ سخن
فکر سے تھے اپنی وہ سب کے دلوں پر حکمراں
فیض اور اردو ادب اب لازم و ملزوم ہیں
باہمی رشتہ ہے اُن کا جس طرح ہوں جسم و جاں
جاری و ساری رہے گا فیضؔ کا یہ فیضِ عام
ہے مُزین فیضؔ سے اردو ادب کی داستاں
تھے وہ برقی آبروئے خطۂ برِ صغیر
جن کے ہیں آثارِ ادبی ایک گنجِ شایگاں
احمد علی برقیؔ اعظمی
یوم پیدائش 20 نومبر 1974
ٹوٹتے خواب کی تعبیر سے اندازہ کیا
میں نے شاید ذرا تاخیر سے اندازہ کیا
دونوں جانب سے مسلمان تھے مرنے والے
آپ نے نعرہء تکبیر سے اندازہ کیا؟
میرے کمرے میں کوئی آیا نہیں میرے بعد
گرد آلود سی تصویر سے اندازہ کیا
جھوٹ کے پائوں بھی ہوتے ہیں اگر تو بولے
آج میں نے تری تقریر سے اندازہ کیا
آپ جادو سے بنا لیتے ہیں مٹی سونا
آپ کی پھیلتی جاگیر سے اندازہ کیا
آپ تو اپنی خوشی سے ہیں غلام ابن ِ غلام
آپ کی قیمتی زنجیر سے اندازہ کیا
عرفان اللہ عرفان
یوم پیدائش 19 نومبر 1915
پھر ترے ہجر کے جذبات نے انگڑائی لی
تھک کے دن ڈوب گیا رات نے انگڑائی لی
جیسے اک پھول میں خوشبو کا دیا جلتا ہے
اس کے ہونٹوں پہ شکایات نے انگڑائی لی
سرخ ہی سرخ ہے اس شہر کا منظر نامہ
امن ہوتے ہی فسادات نے انگڑائی لی
ہم بھی اس جنگ میں فی الحال کیے لیتے ہیں صلح
دیکھا جائے گا جو حالات نے انگڑائی لی
گرمیٔ آہ سے نم ہو گئیں آنکھیں اے دوست
بڑھ گیا حبس تو برسات نے انگڑائی لی
فاصلہ رنج و مسرت میں بس اک سانس کا ہے
مسکرائے تھے کہ صدمات نے انگڑائی لی
جھیل جیسی وہ چمکتی ہوئی آنکھیں تسنیمؔ
ان میں ڈوبے تھے کہ نغمات نے انگڑائی لی
تسنیم فاروقی
یوم پیدائش 19 نومبر
یہ کون رو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے
ماتَم سا ہو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے
تُجھ کو بَتانا ہو گا وہ کون تھا تُو جِس کے
سَپنوں میں کھو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے
محبوب سے مخاطِب ہو کر مَیں داغ دِل کے
اَشکوں سے دھو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے
پُھولوں پہ سونے والا جانے وہ آج کیسے
کانٹوں پہ سو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے
روتے ہوئے میں تابِشؔ پڑھ کر تُمہارے خط کا
کاغذ بھِگو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے
خان اَمیر تابِش نیازی
یوم پیدائش 19 نومبر 1977
آپ کا انتظار اچھا لگا
دل کو یہ اعتبار اچھا لگا
آپ کو دیکھ کر کہا دل نے
حسن کا شاہکار اچھا لگا
آپ آئے مزاج پرسی کو
آج اپنا بخار اچھا لگا
تو ملا ہے تو دل میں پھول کھلے
اے غرورِ بہار اچھا لگا
تونے میری جو دل نوازی کی
اے مرے غم گسار اچھا لگا
ایوب اختر
یوم پیدائش 19 نومبر 1947
تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے
دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا
درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا
یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر
یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا
دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
افتخار امام صدیقی
یوم پیدائش 19 نومبر 1945
مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے
اے بے خبری کچھ مرے ہونے کا پتہ دے
اک دوسرے کی آہٹوں پہ چلتے ہیں سب لوگ
ہے کوئی یہاں جو مجھے رستے کا پتہ دے
خود آپ سے بچھڑا ہوں میں اس اندھے سفر میں
اے تیرگی شب مرے سائے کا پتہ دے
اس آس پہ ہر آئینے کو جوڑ رہا ہوں
شاید کوئی ریزہ مرے چہرے کا پتہ دے
گزری ہے مری عمر سرابوں کے سفر میں
اے ریگ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے
ہر پل کسی آہٹ پہ مرے کان لگے ہیں
جیسے ابھی کوئی ترے آنے کا پتہ دے
بکھرا ہوا ہوں صدیوں کی بے انت تہوں میں
مجھ کو کوئی کھوئے ہوئے لمحے کا پتہ دے
دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے
اے در بدری میرے ٹھکانے کا پتہ دے
ہوں قید حصار رگ گرداب میں سرمدؔ
کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے
سرمد صہبائی
دِل ! آن بان شان یہ اردو زبان ہے
جذبوں کی ترجمان یہ اردو زبان ہے
لمحوں میں اپنے حسن کے جلوے نکھارتی
صدیوں پہ مہر بان یہ اردو زبان ہے
آداب و احترام کے نازوں سے ہے پلی
غالب کی روح و جان یہ اردو زبان ہے
اخلاص کی بلندیاں ربط و ادابھی ہے
ہر باب آسمان یہ اردو زبان ہے
حرفوں میں اسکے عطر یے لفظوں میں چاشنی
نظموں کی پاسبان یہ اردو زبان یے
تہذیب لکھنوی ہے یہ شانِ دکن بھی ہے
گلزارِ گلستان یہ اردو زبان ہے
تاثیر راگ راگنی عکسِ غزل بھی یے
قوموں پہ سائبان یہ اردو زبان ہے
لفظوں کی طرحیں ڈال کے واحد نے جو کہی
خالص وہ نکتہ دان یہ اردو زبان ہے
واحد کشمیری
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...