Urdu Deccan

Monday, November 29, 2021

سلیم احمد

 یوم پیدائش 27 نومبر 1927


زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے


روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش

کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے


آنکھ مانوس تماشا نہیں ہونے پاتی

کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے


گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو

پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے


سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو

بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے


میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شام فراق

وہ کسی شہر نگاراں کی پری لگتی ہے


بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں

آج ہر آنکھ کوئی ابر تہی لگتی ہے


شور طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم

لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے


گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ

یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے


سلیم احمد


شائستہ کنول علی

 ظلمت شب سے کہیں دور اجالا مچلے   

چاند مچلے تو کہیں چاند کا ہالہ مچلے 


روح کی بالکنی میں کوئی خوشبو پھیلے  

دل کے صحرا و بیابان میں لالہ مچلے 


فکر روشن ہو کسی پیار کے افسانے کی   

نوک خامہ میں کوئی مست مقالہ مچلے 


کوئی دلدار ملے "کے ٹو" کی چوٹی جیسا 

دل کے آنگن میں کوئی عشق ہمالہ مچلے 


مرے دل میں مرے بابا کی محبت دھڑکے 

میرے ماتھے پہ میری ماں کا حوالہ مچلے  


وجد میں جام دھمالی ہو صبوحی ناچے 

مے کدہ رقص کرے مے کا پیالہ مچلے  


آج خاموشی میں طوفان چھپا ہے عالی 

برف کے بوجھ تلے جیسے جوالا مچلے 


شائستہ کنول عالی


منور رانا

 یوم پیدائش 26 نومبر 1952


مٹی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا

اب اس سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا


دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں

روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا


بس تو مری آواز سے آواز ملا دے

پھر دیکھ کہ اس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا


اے موت مجھے تو نے مصیبت سے نکالا

صیاد سمجھتا تھا رہا ہو نہیں سکتا


اس خاک بدن کو کبھی پہنچا دے وہاں بھی

کیا اتنا کرم باد صبا ہو نہیں سکتا


پیشانی کو سجدے بھی عطا کر مرے مولیٰ

آنکھوں سے تو یہ قرض ادا ہو نہیں سکتا


دربار میں جانا مرا دشوار بہت ہے

جو شخص قلندر ہو گدا ہو نہیں سکتا


منور رانا


فاروق محور

 یوم پیدائش 25 نومبر


تری زلف کا میں اسیر ہوں ترے حسن کا میں فقیر ہوں 

وہ ادیب جس کی غزل ہے تو کہ خیال تیرے مجاز ہیں 


فاروق محور


ریاض ساغر


 یہ خواہشوں کے سمندر تمہیں ڈبو دیں گے

تم ان سے پیاس بجھانے کی التجا نہ کرو


ریاض ساغر

بقی استوری

 یوم پیدائش 25 نومبر


کسی اجنبی کے دیار پر نہیں جاؤں گا

میں خزاں رسیدہ بہار پر نہیں جاؤں گا


میں سوار ہو کے ہوا کے دوش پہ آؤں گا

میں یہ راستوں کے حصار پر نہیں جاؤں گا


مری خستہ حالی دلیل ہے مرے عشق کی

میں یقیں دلانے کو دار پر نہیں جاؤں گا


کسی آشنا کی جو ہو صدا تو چلیں بقی

کسی اجنبی کی پکار پر نہیں جاؤں گا


بقی استوری


غلام صمدانی عافی

 یوم پیدائش 25 نومبر


فاتحہ پڑھنے کو آتے ہیں ملک صبح و مسا

ہے جہاں روضہ ترا شاہ ھدا کیا کہنے


غلام صمدانی عافی


خاطر غزنوی

 یوم پیدائش 25 نومبر 1925


گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے


گرمئ محفل فقط اک نعرۂ مستانہ ہے

اور وہ خوش ہیں کہ اس محفل سے دیوانے گئے


میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں

مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے


وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں

ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے


یوں تو وہ میری رگ جاں سے بھی تھے نزدیک تر

آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے


اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے

بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے


کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتۂ شب تھے بھی ہم

صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے


خاطر غزنوی


نذیر بنارسی

 یوم پیدائش 25 نومبر 1909


یہ کریں اور وہ کریں ایسا کریں ویسا کریں

زندگی دو دن کی ہے دو دن میں ہم کیا کیا کریں


دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں

لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں


حسن خود آئے طواف عشق کرنے کے لیے

عشق والے زندگی میں حسن تو پیدا کریں


چڑھ کے سولی پر خریدیں گے خریدار آپ کو

آپ اپنے حسن کا بازار تو اونچا کریں


جی میں آتا ہے کہ دیں پردے سے پردے کا جواب

ہم سے وہ پردہ کریں دنیا سے ہم پردا کریں


سن رہا ہوں کچھ لٹیرے آ گئے ہیں شہر میں

آپ جلدی بند اپنے گھر کا دروازہ کریں


کیجئے گا رہزنی کب تک بہ نام رہبری

اب سے بہتر آپ کوئی دوسرا دھندا کریں


اس پرانی بے وفا دنیا کا رونا کب تلک

آئیے مل جل کے اک دنیا نئی پیدا کریں


دل ہمیں تڑپائے تو کیسے نہ ہم تڑپیں نذیرؔ

دوسرے کے بس میں رہ کر اپنی والی کیا کریں


نذیر بنارسی


عفران امجد

 یوم پیدائش 24 نومبر 1959


عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے

مرے حریف لہو کے دیئے جلائیں گے


میں تجربوں کی اذیت کسے کسے سمجھاؤں

کہ تیرے بعد بھی مجھ پر عذاب آئیں گے


بس ایک سجدۂ تعظیم کے تقابل میں

کہاں کہاں وہ جبین طلب جھکائیں گے


عطش عطش کی صدائیں اٹھیں سمندر سے

تو دشت پیاس کے چشمے کہاں لگائیں گے


چھپا کے رکھ تو لیا ہے شرار بو لہبی

دھواں اٹھا تو نظر تک ملا نہ پائیں گے


دراز کرتے رہو دست حق شناس اپنا

بہت ہوا تو وہ نیزے پہ سر اٹھائیں گے


نواح لفظ و معانی میں گونج ہے کس کی

کوئی بتائے یہ امجدؔ کہ ہم بتائیں گے


غفران امجد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...