Urdu Deccan

Tuesday, November 30, 2021

شہاب الدین شاہ قنوجی

 یوم پیدائش 28 نومبر


نعتِ رسولِ مقبولﷺ 


نہیں   ہے   نہیں   ہے   زمیں  آسماں میں 

نہیں آپﷺ  جیسا کوئی دو جہاں میں


تھیں عرشِ  بریں  پر   وہ  دونوں ہی ذاتیں

نہ تھا اور  کوئی  وہاں  درمیاں  میں


محمدﷺ  سا کوئی ہوا  ہے نہ  ہو  گا

وہ بستے ہیں دائم مرے جسم و جاں میں


محمدﷺ  ہیں  احمد  ہیں  قاسم  مدثر 

خدا کے ہیں محبوب وہ دو جہاں میں


جاوید قیصرانی


جاوید قیصرانی

 یوم پیدائش 28 نومبر


نعتِ رسولِ مقبولﷺ 


نہیں ہے نہیں ہے زمیں آسماں میں 

نہیں آپﷺ جیسا کوئی دو جہاں میں


تھیں عرشِ بریں پر وہ دونوں ہی ذاتیں

نہ تھا اور کوئی وہاں درمیاں میں


محمدﷺ سا کوئی ہوا ہے نہ ہو گا

وہ بستے ہیں دائم مرے جسم و جاں میں


محمدﷺ ہیں احمد ہیں قاسم مدثر 

خدا کے ہیں محبوب وہ دو جہاں میں


جاوید قیصرانی


درویش ڈار

 یوم پیدائش 28 نومبر 1968


مثلِ زندان بخت ہے شاید

زندگی لخت لخت ہے شاید


ساکنانِ وطن پریشاں ہیں

حلقہِ طوق سخت ہے شاید


شوقِ گفتار ہے مگر خاموش

شوخ لہجہ کرخت ہے شاید


طائرانِ چمن سے لگتا ہے

ایک بوڑھا درخت ہے شاید


بے نیازی ہے یا غنا ، ورنہ

حاصلِ عمر تخت ہے شاید


قافلہ کوچ کرنے والا ہے

ختم ہونے کو رخت ہے شاید


حسرتِ عمر مر گئی درویش

یہ جبیں تیرہ بخت ہے شاید


درویش ڈار


منظور فائز

 یوم پیدائش 27 نومبر


سو کے پتھر پہ کبھی دیکھ کہ سونا کیا ہے 

تاکہ معلوم تجھے ہو یہ بچھونا کیا ہے 


میری تنہائی کسی روز جو مجھ سے کھیلے 

عین ممکن ہے سمجھ جاوں کھلونا کیا ہے  


بیج کوئی بھی ہو وہ جڑ تو پکڑ ہی لے گا

طے یہ کرنا ہے کہ نم خاک میں بونا کیا ہے


یوں نہ ہونے پہ مرے تجھ کو نہ حیرت ہو گی 

میں اگر تجھ کو بتا دوں کہ یہ ہونا کیا ہے 


ذکر وحشت میں اگر ٹوٹ گری ہے فائز 

چھوڑ تسبیح کے دانوں کو پرونا کیا ہے


منظور فائز


غلام سرور

 تم نے اہلِ وطن کو ہے دھوکا دیا

جھوٹ پر جھوٹ تم نے ہمیشہ کہا


تو وفادار ہے کہتے تھے یہ سبھی

جا نتے تھے تجھے تو فرشتہ سبھی 


جو دیا تھا تجھے اب وہ بھی نہ بچا

واسطے رب کے اب جھوٹ نہ ہی رچا


تیرے کرموں سے غافل رہا نہ کوئی

سب سمجھتے ہیں ، جاہل رہا نہ کوئی


بیچ کر تم نے ایمان، سودا کیا

 اپنے وعدےکو ہر گز نہ پورا کیا


سانس لینا یہاں آج دشوار ہے

 ہر طرف ظلم ہے ایسی سرکار ہے


غلام سرور


اظہر اقبال

 یوم پیدائش 28 نومبر 1978


گھٹن سی ہونے لگی اس کے پاس جاتے ہوئے 

میں خود سے روٹھ گیا ہوں اسے مناتے ہوئے 


یہ زخم زخم مناظر لہو لہو چہرہ 

کہاں چلے گئے وہ لوگ ہنستے گاتے ہوئے 


نہ جانے ختم ہوئی کب ہماری آزادی 

تعلقات کی پابندیاں نبھاتے ہوئے 


ہے اب بھی بستر جاں پر ترے بدن کی شکن 

میں خود ہی مٹنے لگا ہوں اسے مٹاتے ہوئے 


تمہارے آنے کی امید بر نہیں آتی 

میں راکھ ہونے لگا ہوں دئیے جلاتے ہوئے


اظہر اقبال


نور جہاں ثروت

 یوم پیدائش 28 نومبر 1940


پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی

ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہوگی


وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے

دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہوگی


کر گئی جو مری پلکوں کے ستارے روشن

وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہوگی


پھر اندھیرے میں نہ کھو جائے کہیں اس کی صدا

دل کے آنگن میں نئی شمع جلانی ہوگی


اپنے خوابوں کی طرح شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول

چن رہی ہوں کوئی تصویر سجانی ہوگی


بے زباں کر گیا مجھ کو تو سوالوں کا ہجوم

زندگی آج تجھے بات بنانی ہوگی


کر رہی ہے جو مرے عکس کو دھندلا ثروتؔ

میں نے دنیا کی کوئی بات نہ مانی ہوگی


نور جہاں ثروت


Monday, November 29, 2021

کرشن موہن

 یوم پیدائش 28 نومبر 1922


بھٹک کے راہ سے ہم سب کو آزما آئے

فریب دے گئے جتنے بھی رہنما آئے


ہم ان کو حال دل زار بھی سنا آئے

کمال جرات اظہار بھی دکھا آئے


کریں تو کس سے کریں ذکر خانہ ویرانی

کہ ہم تو آگ نشیمن کو خود لگا آئے


خیال وصل میں رہتے ہیں رات بھر بیدار

تمہارے ہجر کے ماروں کو نیند کیا آئے


رہین عیش و طرب ہیں جو روز و شب ان کو

پسند کیسے مرے غم کا ماجرا آئے


کبھی ہمیں بھی میسر ہو روٹھنا ان سے

کبھی ہمارے بھی دل میں یہ حوصلہ آئے


ہر اک سے پوچھتے ہیں حال کرشن موہنؔ کا

جسے ادائے ستم سے وہ خود مٹا آئے


کرشن موہن


شمشاد شاد

 فلک سے لے کے اجالے زمیں پہ رک جانا

مگر ہو شام جہاں بھی وہیں پہ رک جانا


گراں گزرتا ہے مجھ پر ترا یہ طرز سفر

سفر کے بیچ یکایک کہیں پہ رک جانا


جہاں ضمیر اشارہ کرے ٹھہرنے کا

قدم نہ آگے بڑھانا وہیں پہ رک جانا


تو آس پاس کے منظر بھی دیکھنا لیکن

اے چشمِ شوق رخِ نازنیں پہ رک جانا


اے نامہ بر مرا پیغام یار کو دے کر

جواب لینے تلک تو وہیں پہ رک جانا


جو مجھ سے پہلے سفر پر نکلنا پڑ جائے 

تو میں جہاں بھی پکاروں وہیں پہ رک جانا


وہاں تو شور مسلسل ہے شاؔد سانسوں کا

یہاں سکون بہت ہے، یہیں پہ رک جانا


شمشاد شاؔد، ناگپور (انڈیا)



طالب باغپتی

 یوم پیدائش 27 نومبر 1903


یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ

اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ


ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا

خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ


یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں

ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ


جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے

ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ


مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت

چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ


تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور

اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ


عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے

یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ


طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے

جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ


طالب باغپتی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...