Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

طاہر بنارسی

 یوم پیدائش 06 دسمبر


ہم سدا جن سے وفا کرتے رہے

اف جفا پر وہ جفا کرتے رہے


جب تیری یادوں کا بادل چھا گیا

دل جلا کر رت جگا کرتے رہے


ہو نہ جائے عشق میں بدنام وہ

سو ہم ان سے فاصلہ کرتے رہے


نام لے لے کر تیرا اے ہم نشیں

راستہ طے زیست کا کرتے رہے


قرض سانسوں کا چکا کر دن بہ دن

زندگی کا حق ادا کرتے رہے


گل سمجھ کے جس کو تھا طاہر چنا

خار بن کر وہ چبھا کرتے رہے


طاہر بنارسی


ساحل شاہجہانپوری

 یوم پیدائش 06 دسمبر 1941


چمن میں بھی نہیں اب لطفِ آزادی ہمیں حاصل

کبھی صیاد کا ڈر ہے کبھی گلچیں کا کھٹکا ہے


ساحل شاہجہانپوری


سعود عثمانی

 یوم پیدائش 06 دسمبر 1961


حساب ترک تعلق تمام میں نے کیا

شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا


مجھے بھی ترک محبت پہ حیرتیں ہیں رہیں

جو کام میرا نہیں تھا وہ کام میں نے کیا


وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے

سو اس کا جشن بصد اہتمام میں نے کیا


بہت دنوں مرے چہرے پہ کرچیاں سی رہیں

شکست ذات کو آئینہ فام میں نے کیا


بہت دنوں میں مرے گھر کی خاموشی ٹوٹی

خود اپنے آپ سے اک دن کلام میں نے کیا


خدائے ضبط نے موسم پہ قدرتیں بخشیں

غبار تند کو آہستہ گام میں نے کیا


اس ایک ہجر نے ملوا دیا وصال سے بھی

کہ تو گیا تو محبت کو عام میں نے کیا


مزاج غم نے بہر طور مشغلے ڈھونڈے

کہ دل دکھا تو کوئی کام وام میں نے کیا


چلی جو سیل رواں پر وہ کاغذی کشتی

تو اس سفر کو محبت کے نام میں نے کیا


وہ آفتاب جو دل میں دہک رہا تھا سعودؔ

اسے سپرد شفق آج شام میں نے کیا


سعود عثمانی


منظر علی سید

 یوم پیدائش:- 5 ڈسمبر 1929


بہت نحیف ہے طرز فغاں بدل ڈالو

نظام دہر کو نغمہ گراں بدل ڈالو 


دل گرفتہ تنوع ہے زندگی کا اصول

مکاں کا ذکر تو کیا لا مکاں بدل ڈالو 


نہ کوئی چیز دوامی نہ کوئی شے محفوظ

یقیں سنبھال کے رکھو گماں بدل ڈالو 


نیا بنایا ہے دستور عاشقی ہم نے

جو تم بھی قاعدۂ دلبراں بدل ڈالو 


اگر یہ تختۂ گل زہر ہے نظر کے لیے

تو پھر ملازمت گلستاں بدل ڈالو 


جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے

یہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو 


تمہارا کیا ہے مصیبت ہے لکھنے والوں کی

جو دے چکے ہو وہ سارے بیاں بدل ڈالو 


مجھے بتایا ہے سیدؔ نے نسخۂ آساں

جو تنگ ہو تو زمیں آسماں بدل ڈالو


مظفر علی سید


نجمہ شاہین کھوسہ

 یوم پیدائش 05 دسمبر 1973


درد کابوجھ ترے شہر سے لائے ہوئے لوگ

اب کہاں جائیں یہ زخموں کوسجائے ہوئے لوگ


ہیں اس آسیب کے ہر روپ سے انجان ابھی

یہ جو ہیں عشق حقیقت کوبھلائے ہوئے لوگ


کون کہتا ہے کہ زندہ ہیں بظاہر زندہ

روح کا بوجھ بدن میں ہی اٹھائے ہوئے لوگ


بنتے جاتے ہیں یہ تصویر گئے وقتوں کی

ہجرکے روگ کوسینے سے لگائے ہوئے لوگ


وہ جو کٹیا تھی جہاں عشق بسیرا تھا کبھی

وحشتوں کے ہیں وہاں اب تو ستایے ہوئے لوگ


ہیں یہی جن سے سلامت ہے محبت کاوجود

پھول پتھرمیں وفاؤں کے کھلائے ہوئے لوگ


حال پوچھونہ کبھی بچھڑے دلوں کاشاہیں

اپنے لاشوں کوہیں شانوں پہ اٹھائے ہوئے لوگ


نجمہ شاہین کھوسہ


ساگر اعجاز

 یوم پیدائش 05 دسمبر


نہ جنگِ اُحد، نہ خیبر، کوئی ، بدر، بھی نہیں

یہ دل میں کون سی ہے جنگ؟ کچھ خبر بھی نہیں


یہ قید و بند ، سلاسل، کی کس لیے زحمت ؟

ابھی تو پاس میرے توشَۂ مَفَر بھی نہیں


تری بقا کا ہوں شاعر، اے میرے پیارے وطن،

تو کیا ہوا جو مرے پاس اپنا گھربھی نہیں


تھکے ہوے سے مسافر، کو تھوڑا سونے دو

بخیر کوئٰی سفر، ساتھ ہم سفر بھی نہیں


ہمیشہ جیت کے مانی ہے ہار، اپنوں میں

گو ہار اپنا مقدرنہیں،ظفر بھی نہیں


میں اپنے غم کا خلاصہ نہ لکھ سکا اِس میں

وگرنہ قصَّۂ افلاس مختصر بھی نہیں


بھلا کہاں پہ اُگائیں ؟ غزل کے گُل ساگر 

ہمارے شہرِ تغزل میں بحر و بَر بھی نہیں


ساگراعجاز


جگن ناتھ آزاد

 یوم پیدائش 05 دسمبر 1918

 ​

 سلام اُس ذاتِ اقدس پر، سلام اُس فخرِ دوراں پر​

 ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر​

 ​

 سلام اُس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا​

 رہا جو بیکسوں کا آسرا، مشفق غریبوں کا​

 ​

 سلام اُس پر جو آیا رحمۃ اللعالمیں بن کر​

 پیامِ دوست لے کر، صادق الوعد و امیں بن کر​

 ​

 سلام اُس پر کہ جس کے نور سے پُرنور ہے دنیا​

 سلام اُس پر کہ جس کے نطق سے مسحور ہے دنیا​

 ​

 سلام اُس پر کہ جس نے بے زبانوں کو زباں بخشی​

 سلام اُس پر کہ جس نے ناتوانوں کو تواں بخشی​

 ​

 سلام اُس پر جلائی شمعِ عرفاں جس نے سینوں میں​

 کیا حق کے لیے بے تاب سجدوں کو جبینوں میں​

 ​

 سلام اُس پر بنایا جس نے دیوانوں کو فرزانہ​

 مئے حکمت کا چھلکایا جہاں میں جس نے پیمانہ​

 ​

 بڑے چھوٹے میں جس نے اک اخوت کی بِنا ڈالی​

 زمانے سے تمیزِ بندہ و آقا مٹا ڈالی​

 ​

 سلام اُس پر فقیری میں نہاں تھی جس کی سلطانی​

 رہا زیرِ قدم جس کے شکوہ و فرِ خاقانی​

 ​

 سلام اُس پر جو ہے آسودہ زیرِ گنبدِ خضرا​

 زمانہ آج بھی ہے جس کے در پر ناصیہ فرسا​

 ​

 سلام اُس پر کہ جس نے ظلم سہہ سہہ کر دعائیں دیں​

 وہ جس نے کھائے پتھر، گالیاں اِس پر دعائیں دیں​

 ​

 سلام اُس ذاتِ اقدس پر حیاتِ جاودانی کا​

 سلام آزاد کا، آزاد کی رنگیں بیانی کا​

 ​

 جگن ناتھ آزاد


جوش ملیح آبادی

 یوم پیدائش 05 دسمبر 1898

نعت


اے مسلمانو مبارک ہو نویدِ فتح یاب

لو وہ نازل ہورہی ہے چرخ سے ام الکتاب

وہ اٹھے تاریکیوں کے بامِ گردوں سے حجاب

وہ عرب کے مطلعِ روشن سے ابھرا آفتاب


گم ضیائے صبح میں‌شب کا اندھیرا ہوگیا

وہ کلی چٹکی ، کرن پھوٹی سویرا ہوگیا


خسروَ خاور نے پہنچا دیں شعائیں دور دور

دل کھلے شاخیں ہلیں ، شبنم اڑی ، چھایا سرور

آسماں روشن ہوا ، کانپی زمیں پر موج ِ نور

پَو پھٹی ، دریا بہے، سنکی ہوا ، چہکے طہور


نورِ حق فاران کی چوٹی کو جھلکا نے لگا

دلبری سے پرچمِ اسلام لہرانے لگا


گرد بیٹھی کفر کی ، اٹھی رسالت کی نگاہ

گرگئے طاقوں سے بُت، خم ہوگئی پشتِ گناہ

چرخ سے آنے لگی پیہم صدائے لا الہٰ

ناز سے کج ہوگئی آدم کے ماتھے پر کلاہ


آتے ہی‌ ساقی کے ، ساغر آگیا ، خم آگیا

رحمتِ یزداں کے ہونٹوں پر تبسم آگیا


آگیا جس کا نہیں ہے کوئی ثانی وہ رسولؐ

روحِ فطرت پر ہے جس کی حکمرانی وہ رسولؐ

جس کا ہر تیور ہے حکمِ آسمانی وہ رسولؐ

موت کو جس نے بنا یا زندگانی وہ رسولؐ


محفلِ سفاکی و وحشت کو برہم کردیا

جس نے خون آشام تلواروں کو مرہم کردیا


فقر کو جس کے تھی حاصل کج کلاہی وہ رسولؐ

گلہ بانو ں‌ کو عطا کی جس نے شاہی وہ رسولؐ

زندگی بھر جو رہا بن کر سپاہی وہ رسولؐ

جس کی ہر اک سانس قانونِ الٰہی وہ رسولؐ


جس نے قلبِ تیرگی سے نور پیدا کردیا

جس کی جاں‌بخشی نے مُردوں کو مسیحا کردیا


واہ کیا کہنا ترا اے آخری پیغامبر

حشر تک طالع رہے گی تیرے جلووں کی سحر

تونے ثابت کردیا اے ہادیء نوعِ‌ بشر

مرد یوں مہریں لگا تے ہیں جبین ِ وقت پر


کروٹیں دنیا کی تیرا قصر ڈھا سکتی نہیں

آندھیا ں تیرے چراغوں کو بجھا سکتی نہیں


تیری پنہا ں قوتوں سے آج بھی دنیا ہے دنگ

کس طرح تو نے مٹا یا امتیازِ نسل و رنگ

ڈال دی تونے بِنائے ارتباطِ جام و سنگ

بن گیا دنیا میں تخیل ِ اخوت ذوقِ جنگ


تیرگی کو روکشِ مہرِ درخشاں کردیا

تونے جس کانٹے کو چمکا یا گلستا ں کردیا


جوش ملیح آبادی


Saturday, December 4, 2021

نوید صادق

 یوم پیدائش 04 دسمبر 1971


وہ جس نے ایک زمانے کو ٹال رکھا ہے

اسی کی میز پہ میرا سوال رکھا ہے


وہ ایک لمحہ جسے میں نے سرسری جانا

سنا ہے اس نے ابھی تک سنبھال رکھا ہے


یہ دیکھ لے کہ ترے بعد بھی میں زندہ ہوں

یہ دیکھ لے کہ ترا بھی خیال رکھا ہے


کبھی تو سوچ، ترے آس پاس رہ کر بھی

تری طلب نے مجھے کیوں نڈھال رکھا ہے


نوید صادق


انور سدید

 یوم پیدائش 04 دسمبر 1928


حد نظر سے مرا آسماں ہے پوشیدہ

خیال و خواب میں لپٹا جہاں ہے پوشیدہ


چلا میں جانب منزل تو یہ ہوا معلوم

یقیں گمان میں گم ہے گماں ہے پوشیدہ


پلک پہ آ کے ستارے نے داستاں کہہ دی

جو دل میں آگ ہے اس کا دھواں ہے پوشیدہ


افق سے تا بہ افق ہے سراب پھیلا ہوا

اور اس سراب میں سارا جہاں ہے پوشیدہ


ستارہ کیا مجھے افلاک کی خبر دے گا؟

نظر سے اس کی تو میرا جہاں ہے پوشیدہ


تو خود ہے خوار و زبوں حرص و آز دنیا میں

کھلے گا تجھ پہ کہاں جو جہاں ہے پوشیدہ


میں آنکھ کھول کے تکتا ہوں دور تک انورؔ

کہ ڈھونڈ لوں جو مرا آشیاں ہے پوشیدہ


انور سدید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...