یوم پیدائش 10 دسمبر 1930
عہد رفتہ کی حکایت کربلا سے کم نہ تھی
زندگانی نسل آدم پر بلا سے کم نہ تھی
خون کے دریا کی لہروں میں بشر غرقاب تھا
وقت کی رفتار گویا بد دعا سے کم نہ تھی
پھر رہے تھے حکمراں کشکول لے کر در بدر
بندگی کی ظاہری صورت گدا سے کم نہ تھی
ہر طرف خونیں بھنور ہر سمت چیخوں کے عذاب
موج گل بھی اب کے دوزخ کی ہوا سے کم نہ تھی
معبدوں میں جن کے ایماں پر لہو چھڑکا گیا
ان کے خال و خط کی رونق پارسا سے کم نہ تھی
ظلم کے عفریت نے شہروں کو ویراں کر دیا
یوں تو بربادی جہاں میں ابتدا سے کم نہ تھی
ایسی ظالم داستانیں کان میں پڑتی رہیں
حیثیت جن کی طلسمی ماجرا سے کم نہ تھی
جانے کس گرداب ظلمت میں ڈبویا ہے انہیں
جن کی روشن رہنمائی ناخدا سے کم نہ تھی
خیال امروہوی