Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

خیال امروہوی

 یوم پیدائش 10 دسمبر 1930


عہد رفتہ کی حکایت کربلا سے کم نہ تھی

زندگانی نسل آدم پر بلا سے کم نہ تھی


خون کے دریا کی لہروں میں بشر غرقاب تھا

وقت کی رفتار گویا بد دعا سے کم نہ تھی


پھر رہے تھے حکمراں کشکول لے کر در بدر

بندگی کی ظاہری صورت گدا سے کم نہ تھی


ہر طرف خونیں بھنور ہر سمت چیخوں کے عذاب

موج گل بھی اب کے دوزخ کی ہوا سے کم نہ تھی


معبدوں میں جن کے ایماں پر لہو چھڑکا گیا

ان کے خال و خط کی رونق پارسا سے کم نہ تھی


ظلم کے عفریت نے شہروں کو ویراں کر دیا

یوں تو بربادی جہاں میں ابتدا سے کم نہ تھی


ایسی ظالم داستانیں کان میں پڑتی رہیں

حیثیت جن کی طلسمی ماجرا سے کم نہ تھی


جانے کس گرداب ظلمت میں ڈبویا ہے انہیں

جن کی روشن رہنمائی ناخدا سے کم نہ تھی


خیال امروہوی


نصرت صدیقی

 یوم پیدائش 10 دسمبر 1942


گئے دنوں کے دریچے سجانے لگتے ہیں

ہم اپنے حال کو ماضی بنانے لگتے ہیں


خلوص و مہر و محبت کی قدر ختم ہوئی

حیات نو میں یہ سکے پرانے لگتے ہیں


وہ کون ہے جو انہیں کھیلنے نہیں دیتا

وہ کم سنی میں جو روزی کمانے لگتے ہیں


میں تیری زلف کے سائے میں رک تو جاؤں مگر

ترے جمال کے شعلے جلانے لگتے ہیں


زمانے بعد تو آیا ہے لمحہ بھر تو ٹھہر

کہ آتے آتے یہ لمحہ زمانے لگتے ہیں


جنہوں نے قومی تشخص کو پائمال کیا

معاشرے کو وہ اونچے گھرانے لگتے ہیں


ہمیں وہ غیر سمجھتا ہے تو گلہ کیسا

کہ ابتدا میں غلط بھی نشانے لگتے ہیں


یہ عشق بیل کبھی سوکھتی نہیں نصرتؔ

وصال رت میں اسی کو فسانے لگتے ہیں


نصرت صدیقی


محمد علی جوہر

 یوم پیدائش 10 دسمبر 1878


خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی

ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی


قلزم عشق میں ہیں نفع و سلامت دونوں

اس میں ڈوبے بھی تو کیا پار اترنا ہے یہی


قید گیسو سے بھلا کون رہے گا آزاد

تیری زلفوں کا جو شانوں پہ بکھرنا ہے یہی


اے اجل تجھ سے بھی کیا خاک رہے گی امید

وعدہ کر کے جو ترا روز مکرنا ہے یہی


اور کس وضع کے جویا ہیں عروسان بہشت

ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی


حد ہے پستی کی کہ پستی کو بلندی جانا

اب بھی احساس ہو اس کا تو ابھرنا ہے یہی


تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر

شب فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی


ہو نہ مایوس کہ ہے فتح کی تقریب شکست

قلب مومن کا مری جان نکھرنا ہے یہی


نقد جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہرؔ

کام کرنے کا یہی ہے تمہیں کرنا ہے یہی


محمد علی جوہرؔ


ماجد علی احرار

 یوم پیدائش 09 دسمبر


لوٹ کر بے وفا نہیں آیا

ورنہ دنیا میں کیا نہیں آیا 


ہچکیاں بھی ٹھہر ٹھہر آئیں

رحم اُس کو ذرا نہیں آیا 


سب جلاتے رہے چراغوں کو

میرے حصے دیا نہیں آیا


وہ جو کہتا تھا غم مٹا دے گا 

مڑ کے وہ قافلہ نہیں آیا


ماجد علی احرار


ایوب بسمل

 یوم پیدائش 09 دسمبر 


اِک اچّھا دوست بہت تجربے سے بہتر ہے

میرا یہ فلسفہ ہر فلسفے سے بہتر ہے


اگر یقین کا منظرِ سراب لگنے لگے

تو اُسکا لمس اُسے دیکھنے سے بہتر ہے


یہ مانا حاشیے کا اپنا مرتبہ ہے الگ

بقایا صفحہ مگر حاشیے سے بہتر ہے


اِس احتیاط نے لب کھولنے دئیے ہی نہیں

خموش رہنا بہت بولنے سے بہتر ہے


جو شخصیت ہے میری وہ ہی میں دکھونگا تمہیں

یہ سادگی کسی بہروپئے سے بہتر ہے


اب اپنے ساتھ جو موجود ہیں بس اُنکی قدر

جو کھو گئے ہیں انہیں ڈھونڈنے سے بہتر ہے


دل و دماغ جہاں متّفق نہ ہوں بسمل

تو تذکرہ ہی وہاں تبصرے سے بہتر ہے


ایوب بسمل


انجم عرفانی

 یوم پیدائش 09 دسمبر1937 


اب اس سادہ کہانی کو نیا اک موڑ دینا تھا

ذرا سی بات پر عہد وفا ہی توڑ دینا تھا


مہکتا تھا بدن ہر وقت جس کے لمس خوشبو سے

وہی گلدستہ دہلیز خزاں پر چھوڑ دینا تھا


شکست ساز دل کا عمر بھر ماتم بھی کیا کرتے

کہ اک دن ہنستے ہنستے ساز جاں ہی توڑ دینا تھا


سفر میں ہر قدم رہ رہ کے یہ تکلیف ہی دیتے

بہر صورت ہمیں ان آبلوں کو پھوڑ دینا تھا


غلط فہمی کے جھونکوں سے بکھر کر رہ گئے آخر

لہو کی آنچ میں ٹوٹے دلوں کو جوڑ دینا تھا


وہ جس پہ ذکر ہے قول و قسم اور عہد و پیماں کا

کتاب زندگی کے اس ورق کو موڑ دینا تھا


بنایا ہی نہیں ہم نے کبھی یہ سوچ کر انجمؔ

کہ گوتم کی طرح اک دن ہمیں گھر چھوڑ دینا تھا


انجم عرفانی


رضیہ سبحان

 یوم پیدائش 09 دسمبر 


زندگی سے ہوا گلہ بے سود

میں نےجو بھی کہا سنا بےسود 


جب کبھی خود کو ڈھونڈنا چاہا 

مجھ کو میرا پتہ لگا بےسود 


آگہی کا عذاب کیا جھیلا 

خوابِ ہستی بہت لگا بےسود 


جس طرف جاؤں بن ترے یارا

منظرِخوشنما ہوا بےسود 


جب نہ ہمراز ہو نہ ہو ہمدم

چاند تارے ہوا گھٹا بے سود 


نسخہء زندگی جو ہاتھ آیا

خاک میں مل گیا ہوا بےسود 


بن تمھارے ہوں اسطرح رضیہ 

جس طرح ساز بےصدا بےسود 


رضیہ سبحان 


افسر صدیقی امروہوی

 یوم پیدائش 09 دسمبر 1896


روئے حضرتؐ سے اگر نور نہ پایا ہوتا

دونوں عالم میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا


یوسفؑ مصر میں سب کچھ سہی لیکن اک بار

اے زلیخا مرے یوسف کو بھی دیکھا ہوتا


خیر سے امت عاصی کی شفاعت کر لی

ورنہ کیا جانیے کیا حشر ہمارا ہوتا


عرش پہ خالقِ افلاک کے مہمان ہوئے

کیوں نہ دنیا سے بلند آپؐ کا پایا ہوتا


شاهؐ ِلولاک کے دم سے ہے نمودِ ہستی

وہ اگر خلق نہ ہوتے تو یہاں کیا ہوتا


طور پہ جاکر پریشان ہوئے مفت کلیمؑ

اس سے یثرب میں چلے آتے تو اچھا ہوتا


مدح خوانِ شؐہِ لولاک بنایا حق نے

اور کیا اس زیادہ مرا رتبا ہوتا


ثانیء احمد مختار کا امکان نہیں

ایسا ہوتا تو ضرور آپؐ کا سایہ ہوتا


افسر اللہ نے بخشی تھی اگر طبعِ سلیم

عمر کو نعت محمدؐ میں گزارا ہوتا


افسر صدیقی امروہوی


نیاز نیازی

 یوم پیدائش 08 دسمبر


ابھی تو اور بھی خود سے قریب ہونا ہے 

خود اپنے آپ کا مجھ کو خطیب ہونا ہے 


اسی لیے تو شب و روز بڑھ رہے ہیں زخم

کہ اک عزیز کو میرا طبیب ہونا ہے 


یہ رسمِ عاشقی گو کہ بہت پرانی ہے 

یہاں کسی کو کسی کا رقیب ہونا ہے 


ابھی تو وقت نے جلوہ ذرا دکھایا ہے 

اب آگے آگے بہت کچھ عجیب ہونا ہے 


تمہاری عزت و وقعت ہے مال و زر کے سبب 

مرا قصور جہاں میں غریب ہونا ہے


 نیاز نیازی


بلقیس جمال بریلوی

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1909

خونبائبہ دل


خوں کی نہریں داستانِ دل کا عنواں ہو گئیں

آبلہ سائی سے آنکھیں گل بدا ماں ہوگئیں


ہائے اے ہمدم میری افسردہ سامانی نہ پوچھ

دل کی حسرت زائیاں وحشت کا ساماں ہو گئیں


شامِ غم تاریکیاں خاموشیاں بڑھنے لگیں

میری آنکھیں خود بخود شبنم بدماں ہو گئیں


ہیں کٹورے میری آنکھوں کے چھلکنے کے قریب

سیلِ آبِ اشک سے پلکیں جو لرزاں ہو گئیں


نغمہ محفل میں میں ہوں یعنی اک تصویر یاس

شمع کی خاموشیاں بھی مجھ پہ قرباں ہو گئیں


ٹمٹماتا سا چراغِ آرزو سینہ میں ہے

دل کی ظلمت زائیاں جس سے درخشاں ہو گئیں


اے جمال مضطرب خاموش اب بہر خدا

تیری نغمہ زائیاں حسرت کا طوفاں ہو گئیں


بلقیس جمال بریلوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...