Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

جمیل نظر

 یوم پیدائش 12 دسمبر 1925


حوصلے اپنے رہنما تو ہوئے

حادثے غم کا آسرا تو ہوئے


بے وفا ہی سہی زمانے میں

ہم کسی فن کی انتہا تو ہوئے


وادئ غم کے ہم کھنڈر ہی سہی

آنے والوں کا راستہ تو ہوئے


کچھ تو موجیں اٹھی سمندر سے

بے سبب ہی سہی خفا تو ہوئے


ان کو اپنا ہی غم سہی لیکن

وہ کسی غم میں مبتلا تو ہوئے


خود کو بیگانہ کر کے دنیا سے

چند چہروں سے آشنا تو ہوئے


خندۂ گل ہوئے کہ شعلۂ جاں

حال پہ میرے لب کشا تو ہوئے


پتھروں کے نگر میں جا کے نظرؔ

کم سے کم سنگ آشنا تو ہوئے


جمیل نظر


راسخ عرفانی

 یوم پیدائش 12 دسمبر 1912


سایہ سا اک خیال کی پہنائیوں میں تھا

ساتھی کوئی تو رات کی تنہائیوں میں تھا


ہر زخم میرے جسم کا میرا گواہ ہے

میں بھی شریک اپنے تماشائیوں میں تھا


غیروں کی تہمتوں کا حوالہ بجا مگر

میرا بھی ہاتھ کچھ مری رسوائیوں میں تھا


ٹوٹے ہوئے بدن پہ لکیروں کے جال تھے

قرنوں کا عکس عمر کی پرچھائیوں میں تھا


گرداب غم سے کون کسی کو نکالتا

ہر شخص غرق اپنی ہی گہرائیوں میں تھا


نغموں کی لے سے آگ سی دل میں اتر گئی

سر رخصتی کے سوز کا شہنائیوں میں تھا


راسخؔ تمام گاؤں کے سوکھے پڑے تھے کھیت

بارش کا زور شہر کی انگنائیوں میں تھا


راسخ عرفانی


نازش غفار

 یوم پیدائش 11 دسمبر 


پڑھوں نعت ان کی ،سعادت یہی ہے

کہوں نعت ان کی، عنایت یہی ہے


ترے در کو دیکھیں، ترے در کو چومیں

فقیروں کی آقا، محبت یہی ہے


کہا جن کو اپنے پرائے نے صادق 

 رسول خدا کی تو ،مدحت یہی ہے


درودوں کی تسبیح ،جاری فلک پر

ملائک کی لگتا ،عبادت یہی ہے


محمّد محمّد پکارا جو لب سے

مٹا درد و غم سب، کرامت یہی ہے


سبھی کی جہاں میں، مرادوں کی جھولی

بھرے جا رہے ہیں، سخاوت یہی ہے


نازش غفار


حسن رضا

 یوم پیدائش 11 دسمبر


جب تلک ذکرِ نبی ﷺ وردِ زباں رہتا ہے

قلب پر نُور اترنے کا سماں رہتا ہے


آنکھ لوٹ آئی مدینے کی زیارت کر کے

اک مِرا دل ہے جو ہر وقت وہاں رہتا ہے


یاد سے آپ ﷺ کی مہکا ہے یہ صحرائے خیال

آپ ﷺ کے ذکر سے ہی بخت جواں رہتا ہے


جس کو مل جائے درِ شہ ﷺ پہ گدائی کا شرف

پھر وہ شاہی کا طلب گار کہاں رہتا ہے


کیوں نہ پھر سب کو مہک آئے مری باتوں سے

ذکرِ سرکار ﷺ جو اس لب پہ رواں رہتا ہے 


حسن رضا


پروین ام مشتاق

 یوم پیدائش 11 دسمبر 1866


اب کوئی ترا مثل نہیں ناز و ادا میں

انداز میں شوخی میں شرارت میں حیا میں


مغرور سے سرکش متواضع پہ ہوں قرباں

مٹی میں تو مٹی ہوں ہوا ہوں میں ہوا میں


کیا خوب وہ خود کرتے ہیں یوں اپنی ستائش

آفت ہوں جلانے میں قیامت ہوں جفا میں


غیرت نہیں آتی تمہیں ہر بات میں بیٹھے

الفت میں محبت میں مروت میں وفا میں


جب ہو دم آخر تو بچا لینے کی طاقت

پھر خاک شفا میں نہ کہیں آب بقا میں


وہ چاہے تو سب کچھ ہے نہ چاہے تو نہیں کچھ

تعویذ میں گنڈے میں فتیلہ میں دعا میں


اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت

مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں


سرخی کے سبب خوب کھلا ہے گل لالہ

عارض میں لبوں میں کف دست و کف پا میں


عشاق کی خوں ریزی سے کیا فائدہ ظالم

مشغول ہو لاکھے میں تو مصروف حنا میں


عاشق تو ہمیشہ ہے محبت کی بدولت

الزام میں تقصیر میں عصیاں میں خطا میں


ہم بھی تھے کبھی خوبیٔ تقدیر سے پرویںؔ

عرفات میں مزدلفہ میں مکہ میں منا میں


پروین ام مشتاق


م حسن لطیفی

 یوم پیدائش 11 دسمبر 1905


نزدیک سی شے سایۂ حائل سے بہت دور

منزل ہے شناسائی منزل سے بہت دور


دشوار سہی دور نہیں نکتہ رسی سے

لیکن ہے غلط رسمیٔ راحل سے بہت دور


یہ عین خودی عشق کے آثار میں ہے غم

پہلو سے ہے کم دور مقابل سے بہت دور


ہر سہل طلب سے تو ہے برگشتہ بدیہہ

ہر سائل کامل کے بھی حاصل سے بہت دور


قربانیاں کچھ رکھ دے گرو ایسی اٹھے گونج

گر پڑ کے جو پہنچے کوئی مشکل سے بہت دور


طاری اثر صدمہ کبھی نشۂ تندی

خود سنجیٔ حق سیرت زائل سے بہت دور


مشاطگیٔ شانہ بہت سلسلۂ جنباں

تہہ داریٔ صد زلف اوائل سے بہت دور


اک سلسلۂ موجۂ زنجیر شکن سا

گھستے ہوئے زنداں سے سلاسل سے بہت دور


غلطیدہ و پیچیدہ و آشفتہ سی اک موج

ساحل کو لیے زد میں ہے ساحل سے بہت دور


صد زاویہ محراب تغیر کم و افزوں

ادراک کے بازوئے حمائل سے بہت دور


یوں جیسے کہ ہر عصر رواں کے متوازی

موسم کی ہر اک شق کے مماثل سے بہت دور


پنہاں ابھی کم پوش بھی مبہم ابھی ہر بار

پایابیٔ مضراب رگ دل سے بہت دور


لاہوت کی اک لہر سوئے کرب دل خاک

لایا کوئی جذبہ کسی محفل سے بہت دور


م حسن لطیفی


نریش کمار شاد

 یوم پیدائش 11 دسمبر 1927


بدگماں مجھ سے نہ اے فصل بہاراں ہونا

میری عادت ہے خزاں میں بھی گل افشاں ہونا


میرے غم کو بھی دل آویز بنا دیتا ہے

تیری آنکھوں سے مرے غم کا نمایاں ہونا


کیوں نہ پیار آئے اسے اپنی پریشانی پر

سیکھ لے جو تری زلفوں سے پریشاں ہونا


میرے وجدان نے محسوس کیا ہے اکثر

تیری خاموش نگاہوں کا غزل خواں ہونا


یہ تو ممکن ہے کسی روز خدا بن جائے

غیر ممکن ہے مگر شیخ کا انساں ہونا


اپنی وحشت کی نمائش مجھے منظور نہ تھی

ورنہ دشوار نہ تھا چاک گریباں ہونا


رہرو شوق کو گمراہ بھی کر دیتا ہے

بعض اوقات کسی راہ کا آساں ہونا


کیوں گریزاں ہو مری جان پریشانی سے

دوسرا نام ہے جینے کا پریشاں ہونا


جن کو ہمدرد سمجھتے ہو ہنسیں گے تم پر

حال دل کہہ کے نہ اے شادؔ پشیماں ہونا


نریش کمار شاد


رمشا خان

 یوم پیدائش 10 دسمبر


جیسی ہو شکل ویسی دکھاتا ہے آئینہ

سچائی کو کبھی نہ چھپاتا ہے آئینہ


خصلت ہے اسکی جھوٹ کبھی بولتا نہیں

رشتہ ہمیشہ سچ کا نبھاتا ہے آئینہ


چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں محفل میں نکتہ چیں

جب انکے سامنے کوئی لاتا ہے آئینہ


اک بار ٹوٹ جائے تو جڑتا نہیں کبھی

گرنے سے قبل سب کو بتاتا ہے آئینہ


اس فلسفے کو سمجھا نہیں کوٸی آج تک

پل میں رلاۓ پل میں ہنساتا ہے آئینہ


آجاتا ہے غرور انہیں خود کو دیکھ کر

ان سے نگاہ جب بھی ملاتا ہے آئینہ


اس سے نظر ملانے کی جرآت نہ کیجٸے

رمشا نظر بھی خوب لگاتا ہے آئینہ


رمشا خان


وسیم احمد تبارک

 یوم پیدائش 10 دسمبر


زندگی ختم ہو جائے گی

ہر خوشی ختم ہو جائے گی


تم تکبر کرو گے تو پھر

عاجزی ختم ہو جائے گی


تم اگر شرک کرتے رہے

بندگی ختم ہو جائے گی


رخ سے پردہ ہٹائیں گے جب

تِیرگی ختم ہو جائے گی


یار غربت کو آ لینے دے

عاشقی ختم ہو جائے گی


تو محبت کو دل میں بسا

دل لگی ختم ہو جائے گی


وسیم احمد تبارک


خیال امروہوی

 یوم پیدائش 10 دسمبر 1930


عہد رفتہ کی حکایت کربلا سے کم نہ تھی

زندگانی نسل آدم پر بلا سے کم نہ تھی


خون کے دریا کی لہروں میں بشر غرقاب تھا

وقت کی رفتار گویا بد دعا سے کم نہ تھی


پھر رہے تھے حکمراں کشکول لے کر در بدر

بندگی کی ظاہری صورت گدا سے کم نہ تھی


ہر طرف خونیں بھنور ہر سمت چیخوں کے عذاب

موج گل بھی اب کے دوزخ کی ہوا سے کم نہ تھی


معبدوں میں جن کے ایماں پر لہو چھڑکا گیا

ان کے خال و خط کی رونق پارسا سے کم نہ تھی


ظلم کے عفریت نے شہروں کو ویراں کر دیا

یوں تو بربادی جہاں میں ابتدا سے کم نہ تھی


ایسی ظالم داستانیں کان میں پڑتی رہیں

حیثیت جن کی طلسمی ماجرا سے کم نہ تھی


جانے کس گرداب ظلمت میں ڈبویا ہے انہیں

جن کی روشن رہنمائی ناخدا سے کم نہ تھی


خیال امروہوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...