یوم پیدائش 12 دسمبر 1925
حوصلے اپنے رہنما تو ہوئے
حادثے غم کا آسرا تو ہوئے
بے وفا ہی سہی زمانے میں
ہم کسی فن کی انتہا تو ہوئے
وادئ غم کے ہم کھنڈر ہی سہی
آنے والوں کا راستہ تو ہوئے
کچھ تو موجیں اٹھی سمندر سے
بے سبب ہی سہی خفا تو ہوئے
ان کو اپنا ہی غم سہی لیکن
وہ کسی غم میں مبتلا تو ہوئے
خود کو بیگانہ کر کے دنیا سے
چند چہروں سے آشنا تو ہوئے
خندۂ گل ہوئے کہ شعلۂ جاں
حال پہ میرے لب کشا تو ہوئے
پتھروں کے نگر میں جا کے نظرؔ
کم سے کم سنگ آشنا تو ہوئے
جمیل نظر